کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

اردو زبان اور ادب میں متشرقین کی علمی خدمات کا تحقیقی جائزہ

اردو زبان و ادب میں متشرقین (Orientalists) کی علمی خدمات کا تحقیقی جائزہ ایک نہایت اہم اور وقیع علمی موضوع ہے، جو برصغیر کی نوآبادیاتی تاریخ، لسانی ارتقا، اور ادبی تحقیق کے تناظر میں نمایاں اہمیت رکھتا ہے۔ متشرقین دراصل وہ مغربی محققین، زبان دان، مورخین اور ادبی نقاد تھے جنہوں نے مشرقی علوم، تہذیب، مذاہب، اور بالخصوص اسلامی و جنوبی ایشیائی ادبیات کو علمی و تحقیقی سطح پر دریافت اور پیش کرنے کی سعی کی۔ اردو زبان چونکہ اسلامی تہذیب، فارسی و عربی اثرات، ہندوی بولیوں، اور دیسی زمین سے جنم لینے والی زبان تھی، اس لیے متشرقین کی توجہ کا ایک خاص مرکز بنی۔ اٹھارویں صدی کے اواخر سے لے کر بیسویں صدی کے وسط تک متعدد یورپی مستشرقین نے اردو زبان و ادب کو علمی بنیادوں پر مرتب کیا، لغات و قواعد کی تدوین کی، ادبی متون کو جمع کیا، تراجم کیے، تبصرے لکھے، اور تحقیقی مضامین و کتب کے ذریعے اردو کے ادبی سرمائے کو دنیا کے علمی حلقوں میں متعارف کرایا۔

ابتدائی مستشرقین میں سر ولیم جونز کا نام سب سے نمایاں ہے، جنہوں نے 1784 میں کلکتہ میں ایشیاٹک سوسائٹی کی بنیاد رکھی اور مشرقی علوم کے باقاعدہ مطالعے کی راہ ہموار کی۔ اگرچہ ان کا براہ راست اردو سے تعلق محدود تھا، لیکن ان کی تحریک سے جو علمی بیداری پیدا ہوئی، اس کے نتیجے میں متعدد مغربی محققین اردو کی طرف متوجہ ہوئے۔ جان گلکرسٹ ایک اور نمایاں نام ہے، جنہوں نے فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں اردو زبان کی تعلیم اور تدریس کو ایک سائنسی دائرہ عطا کیا۔ ان کی مرتب کردہ لغت A Dictionary of Hindustani Language اور اردو قواعد کی کتب نے اردو زبان کو غیرملکی طلبہ کے لیے قابلِ فہم بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ فورٹ ولیم کالج کے زیرِ اثر اردو نثر کو نئی جہت ملی، اور اسی پس منظر میں میر امن کی باغ و بہار، سرشار کی فسانۂ آزاد اور دیگر متون کو تدریسی سطح پر متعارف کرایا گیا، جنہیں مستشرقین نے مغربی اصولوں کے مطابق مرتب اور شائع کیا۔

گیل کرائسٹن، جارج ابراہم گریئرسن، تھامس گریرسان، اور دوسرے یورپی محققین نے اردو زبان کے لسانی تجزیے، لہجوں، بولیوں، اور علاقائی اثرات پر تحقیق کی اور Linguistic Survey of India جیسے غیر معمولی علمی منصوبے میں اردو کو ایک باقاعدہ لسانی اکائی کے طور پر پیش کیا۔ گریئرسن نے اردو کو “Hindustani” کے دائرے میں رکھ کر اس کی شمالی و جنوبی لہجوں پر سیر حاصل کام کیا، اور اردو کی داخلی ساخت، صرف و نحو، اور صوتیاتی خصوصیات پر ایسے تحقیقی نکات پیش کیے جنہیں آج بھی حوالہ جاتی طور پر قبول کیا جاتا ہے۔ اس سے اردو زبان کی شناخت، ترویج، اور عالمی سطح پر قبولیت کو مدد ملی۔

ادبی سطح پر فرانسس ویبسٹر، جوزف ہیلے، جان ٹائٹلر، اور گارساں دتاسی جیسے محققین نے اردو شاعری، خاص طور پر میر، غالب، سودا، انیس، اور حالی کی شاعری کا انگریزی میں ترجمہ کیا اور ان پر تنقیدی مضامین تحریر کیے۔ ان تراجم کے ذریعے اردو شاعری کو مغربی قارئین تک پہنچایا گیا اور اردو کے شعری محاسن، استعاراتی نظام، عروضی بندشوں، اور جمالیاتی اسالیب کو مغربی تنقید کی زبان میں بیان کیا گیا۔ البتہ یہ امر بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ان تراجم میں اکثر مغربی فہم، تہذیبی فاصلوں، اور لسانی محدودیتوں کے باعث بعض مفاہیم کی تہیں نظر انداز ہو گئیں، جس پر بعد کے محققین نے تنقید بھی کی۔

متشرقین کی ایک بڑی خدمت مخطوطات اور کلاسیکی اردو متون کی دریافت، تدوین، اور اشاعت تھی۔ انہوں نے دہلی، لکھنؤ، لاہور، حیدرآباد، اور دیگر مراکز سے نایاب ادبی نسخے حاصل کیے، ان کا موازنہ و تصحیح کی، اور جدید طباعت کے ذریعے انہیں محفوظ کیا۔ ان میں غالب کے خطوط، میر کے دیوان، انیس کے مراثی، اور دیگر شعرا و نثرنگاروں کی نایاب کتابیں شامل ہیں۔ بعض مستشرقین نے اردو کے عروض، صنفی تنوع، داستان گوئی، تمثیل نگاری، اور سوانح نگاری پر بھی تحقیقی مقالے لکھے، جنہوں نے اردو ادب کے کئی پہلوؤں کو نئے زاویوں سے اجاگر کیا۔

تاہم اس تحقیقی خدمات کے ساتھ ساتھ تنقیدی سطح پر یہ بھی کہنا ضروری ہے کہ متشرقین کی تحقیق بعض اوقات نوآبادیاتی ذہنیت سے متاثر نظر آتی ہے۔ وہ اردو اور اسلامی علوم کو ایک “مطالعۂ غیر” کے طور پر دیکھتے تھے، جس میں مشرقی ثقافت کو “عجیب”، “تاریخی”، یا “جمالیاتی” تو قرار دیا گیا، لیکن اکثر ان علوم کے زندہ روحانی اور معاشرتی رشتوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔ اس تنقید کے باوجود ان کے علمی کارنامے اپنی جگہ بہت اہم ہیں، اور اردو کے جدید محققین بھی ان کے دیے ہوئے بنیادی مواد، تدوینات، اور اشاریوں سے استفادہ کرتے ہیں۔

نتیجہ کے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو زبان و ادب میں متشرقین کی علمی خدمات کئی زاویوں سے اہم اور پائیدار ہیں۔ انہوں نے اردو کو مغرب میں متعارف کرایا، اس کی لغت و نحو پر کام کیا، کلاسیکی متون کو محفوظ کیا، اور اردو ادب کے مختلف اصناف پر تحقیق کے دروازے کھولے۔ اگرچہ ان کی کوششیں بعض تنقیدی نکات کی حامل بھی رہیں، تاہم اردو کے علمی و ادبی ذخیرے کی تشکیل و توسیع میں ان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اردو تحقیق کا ہر سنجیدہ قاری اور محقق متشرقین کے فراہم کردہ بنیادی مآخذ سے واقف ہے، اور آج بھی اردو کا تحقیقی سفر اُن کی علمی میراث سے فیضیاب ہو رہا ہے۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں