Logo

کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

اردو خاکہ نگاری میں نرگسیت کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ

اردو خاکہ نگاری میں نرگسیت ایک اہم ادبی اور نفسیاتی پہلو کے طور پر سامنے آتی ہے، جس میں مصنف کسی شخصیت کی تصویر کشی کے دوران اپنی ذات یا اپنے خیالات کو مرکزی حیثیت دے دیتا ہے۔ اردو ادب میں خاکہ نگاری کی روایت مولانا محمد حسین آزاد، رشید احمد صدیقی، اور مرزا فرحت اللہ بیگ کے عہد سے شروع ہو کر عصری دور تک پہنچتی ہے، جہاں شخصی خاکوں میں نرگسیت کے رجحانات واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ بعض خاکہ نگار اپنے موضوع کے بجائے اپنی ذاتی رائے، احساسِ برتری، یا خود پسندی کو زیادہ نمایاں کرتے ہیں، جس سے خاکہ محض شخصیت نگاری کے بجائے مصنف کی نفسیاتی جھلک بن کر رہ جاتا ہے۔ سلیم احمد، ابراہیم جلیس، اور جوش ملیح آبادی کے خاکوں میں نرگسیت کے مختلف رنگ دیکھے جا سکتے ہیں، جہاں وہ شخصیت کے بجائے اپنے خیالات اور تاثرات کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ بعض نقادوں کے مطابق، نرگسیت اردو خاکہ نگاری میں تخلیقی حسن کو متاثر کر سکتی ہے، کیونکہ اس سے شخصیت کی حقیقت پسندی اور غیر جانب داری متاثر ہوتی ہے۔ تاہم، بعض خاکہ نگاروں کے ہاں نرگسیت ایک فنی ہنر کے طور پر بھی دیکھی جا سکتی ہے، جو متن کو زیادہ دلچسپ اور ذاتی تجربے سے ہم آہنگ بناتی ہے۔ اردو خاکہ نگاری میں نرگسیت کا یہ پہلو نہ صرف تنقیدی جائزے کا متقاضی ہے بلکہ اس سے ادب میں شخصیت نگاری کے ارتقائی رجحانات کو بھی سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں