Logo

کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

اردو املا کے مسائل ومباحث، تنقیدی و توضیحی مطالعہ

اردو املا کے مسائل اور مباحث ایک نہایت اہم اور پیچیدہ موضوع ہے، جس پر کئی ماہرینِ لسانیات، محققین اور ادیبوں نے مختلف ادوار میں غور و فکر کیا ہے۔ اردو زبان کا رسم الخط عربی اور فارسی سے مستعار لیا گیا ہے، لیکن اردو کے صوتی اور نحوی نظام میں بعض ایسے اختلافات موجود ہیں جن کی بنا پر املا کے مسائل بار بار زیرِ بحث آتے رہے ہیں۔ اردو املا کے بنیادی مسائل میں ہمزہ کی درست صورت، مرکبات کی کتابت، اضافتی یا غیر اضافتی “ی”، ہائے مختفی اور ہائے ظاہرہ، ہم آواز الفاظ کی کتابت، اور اردو میں داخل ہونے والے انگریزی یا دیگر زبانوں کے الفاظ کی املا شامل ہیں۔ یہ مسائل صرف تلفظ یا صوتیات تک محدود نہیں بلکہ اردو کے رسم الخط کی پیچیدگی، مختلف دبستانوں کے املا میں اختلافات، اور روایتی و جدید اصولوں کے درمیان توازن پیدا کرنے کے مباحث بھی ان کا حصہ ہیں۔ اردو کے ابتدائی دور میں املا کے کوئی سخت اصول نہیں تھے، اور اکثر ادیب اپنے ذاتی یا علاقائی اسلوب کے مطابق لکھتے تھے، لیکن بیسویں صدی میں املا کے معیاری اصول مرتب کرنے کی کوششیں کی گئیں، جن میں انجمن ترقی اردو، اردو لغت بورڈ، اور مقتدرہ قومی زبان (اب ادارہ فروغِ قومی زبان) جیسے ادارے پیش پیش رہے۔ املا کے ان مسائل پر حالی، شبلی، عبدالحق، محمد حسین آزاد اور مولوی نذیر احمد جیسے کلاسیکی ادیبوں نے بھی توجہ دی، جبکہ جدید محققین جیسے گیان چند جین، جمیل جالبی، اور مسعود حسین خاں نے اردو املا کے معیارات کے تعین میں اہم کردار ادا کیا۔ اردو املا کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ زبان کی صوتیات میں ارتقا ہوتا رہتا ہے، جس کے نتیجے میں بعض الفاظ کی کتابت میں تغیرات آتے ہیں، مثلاً “ہے” اور “ہیں” کی مختلف صورتیں یا “یقین” اور “یقیں” کی املا میں اختلاف۔ بعض محققین اردو رسم الخط میں سادگی اور سائنسی اصولوں کے مطابق اصلاحات کے قائل ہیں، جبکہ بعض اسے اردو کی تاریخی شناخت کا لازمی حصہ مانتے ہیں۔ اردو املا کے مسائل پر ہونے والے تنقیدی و توضیحی مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگرچہ اردو املا میں کئی پیچیدگیاں موجود ہیں، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ تحقیق و تنقید کے ذریعے ان کے معیاری اصول مرتب کیے جا رہے ہیں، تاکہ اردو رسم الخط کو زیادہ مستحکم اور قابلِ فہم بنایا جا سکے۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں