زبان کسی قوم کی فکری و تہذیبی شناخت کا سب سے بنیادی وسیلہ ہے۔ زبان کی درست تفہیم اور تحریر و تلفظ کا صحیح استعمال ادبی، علمی اور سماجی اظہار کے لیے نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ اردو زبان چونکہ برصغیر کی مختلف زبانوں کے امتزاج سے وجود میں آئی، اس لیے اس میں املا (Orthography) اور تلفظ (Pronunciation) کے مسائل شروع سے ہی زیرِ بحث رہے ہیں۔
لسانی محققین نے ان مسائل پر مختلف پہلوؤں سے غور کیا اور اصلاحی تجاویز بھی پیش کیں۔ تاہم ان آرا میں باہمی اختلافات اور تنقیدی زاویے بھی ملتے ہیں۔
اردو کا رسم الخط فارسی و عربی سے ماخوذ ہے، جو دائیں سے بائیں لکھا جاتا ہے۔ اس کے املا میں چند بنیادی مسائل ہمیشہ زیرِ بحث رہے ہیں:
- ہمزہ کا استعمال: ہمزہ کی جگہ، لکھنے کے طریقے اور تلفظ کے مسائل۔ مثال کے طور پر “ذائقہ” اور “زائقہ”، یا “مسئلہ” اور “مسلہ”۔
- ی اور ے کا فرق: آخر میں آنے والی “ی” اور “ے” کے امتیاز پر ہمیشہ اختلاف رہا۔
- الف مقصورہ اور الف ممدودہ: جیسے “دعا” اور “دُعاء” یا “ہوا” اور “ہوآ”۔
- ت کی اقسام: “ت” اور “ط” کے استعمال میں کن الفاظ کو کس اصول پر لکھا جائے۔
- غیر عربی یا دخیل الفاظ کا املا: انگریزی اور دیگر زبانوں کے الفاظ کو اردو میں کس انداز سے لکھا جائے، جیسے “ٹیلی فون” یا “ٹیلی فون”۔
یہ مسائل محض املائی سطح پر نہیں بلکہ تلفظ اور فہم پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔
اردو کے تلفظ پر سب سے زیادہ اثر ہندی، فارسی اور عربی کا رہا ہے۔ بعض حروف کے تلفظ میں مختلف دبستانوں کا اختلاف پایا جاتا ہے، مثلاً:
- “ق” اور “ک” کا امتیاز اکثر علاقوں میں ختم ہو جاتا ہے۔
- “ذ” اور “ز” کے درمیان فرق مٹ گیا ہے۔
- “ث”، “س” اور “ص” کا تلفظ تقریباً ایک جیسا ہوگیا ہے۔
- علاقائی لہجے اور بولیوں نے بھی تلفظ کے اختلافات کو بڑھایا۔
یوں اردو کا تلفظ ایک “معیاری” اور ایک “علاقائی” صورت میں بٹ گیا ہے، اور لسانی محققین نے دونوں کی اہمیت پر بحث کی ہے۔
مولوی عبدالحق کو اردو کا محسنِ اعظم کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اردو املا کی درستگی اور معیار کے لیے بے شمار خدمات انجام دیں۔ ان کے نزدیک اردو کا رسم الخط اپنی اصل صورت میں برقرار رہنا چاہیے اور عربی و فارسی کے اصولوں کو زیادہ سے زیادہ ملحوظ رکھنا چاہیے۔
تاہم ان پر یہ تنقید بھی کی جاتی ہے کہ انہوں نے اصلاحات میں جدت کے بجائے روایت کو زیادہ اہمیت دی، جس سے املا کے کئی مسائل برقرار رہے۔
حالی اور شبلی نے اردو کی سادگی اور آسانی پر زور دیا۔ وہ چاہتے تھے کہ املا میں ایسی اصلاحات کی جائیں جو عوام کے لیے سہل ہوں۔ ان کے نزدیک زبان کا مقصد اظہارِ خیال ہے، اس لیے پیچیدہ املائی اصولوں پر اصرار نہیں ہونا چاہیے۔
رشید حسن خان نے اردو املا پر تفصیلی کام کیا۔ ان کی کتاب “اردو املا“ کو اس موضوع پر بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ انہوں نے اصولی بنیادوں پر الفاظ کے املا کو واضح کرنے کی کوشش کی اور “ی” اور “ے” کے فرق، “ہمزہ” کے استعمال اور “غلط العام” کے مسائل پر خاص زور دیا۔
ان کے نزدیک املا کا تعلق تلفظ سے ہے لیکن رسم الخط کی اپنی ایک تاریخی روایت بھی ہے جسے یکسر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
نارنگ نے لسانی اصولوں کی روشنی میں اردو کے املا اور تلفظ کے مباحث کو جدید زاویے سے دیکھا۔ وہ زبان کو ایک زندہ اور تغیر پذیر نظام سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک تلفظ عوامی استعمال سے طے پاتا ہے، لہٰذا املا کو بھی عوامی رویوں کے مطابق ڈھلنا چاہیے۔
جالبی نے اردو رسم الخط کی تاریخ پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ اردو املا ہمیشہ ارتقائی مراحل سے گزرتا رہا ہے۔ انہوں نے املا کی معیاری صورت پر زور دیا لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہا کہ مکمل یکسانیت پیدا کرنا ممکن نہیں کیونکہ زبان فطری طور پر تغیرپذیر ہے۔
۶گیان چند جین نے کہا کہ اردو کا تلفظ اکثر ہندی سے قریب ہوتا جا رہا ہے اور اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
- کلیم الدین احمد نے اس بات پر زور دیا کہ اردو املا میں غیر ضروری پیچیدگیاں ختم ہونی چاہییں تاکہ تعلیم میں آسانی ہو۔
لسانی محققین کی آرا کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو چند پہلو نمایاں ہوتے ہیں:
- روایت پسند اور اصلاح پسند کا اختلاف
مولوی عبدالحق اور رشید حسن خان نے روایت کو زیادہ اہمیت دی، جب کہ حالی، شبلی اور نارنگ نے عوامی سہولت اور اصلاحات پر زور دیا۔ - املا بمقابلہ تلفظ
کچھ محققین کے نزدیک املا کو تلفظ کے قریب ہونا چاہیے (نارنگ، جین)، جبکہ بعض کے نزدیک رسم الخط کی تاریخی بنیادیں زیادہ اہم ہیں (مولوی عبدالحق، رشید حسن خان)۔ - یکسانیت بمقابلہ تنوع
رشید حسن خان اور جمیل جالبی یکسانیت کے قائل ہیں، لیکن دیگر محققین نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ اردو کے مختلف دبستانوں میں تلفظ کا تنوع ہمیشہ رہے گا۔ - تعلیمی سہولت
کلیم الدین احمد اور حالی جیسے اہلِ فکر چاہتے ہیں کہ املا ایسا ہو جو طلبہ اور عام قاری کے لیے سہل ہو، تاکہ زبان کا فروغ ہو سکے۔
آج کے دور میں اردو املا اور تلفظ کے مسائل نسبتاً زیادہ پیچیدہ ہوگئے ہیں کیونکہ:
- انگریزی اور دیگر زبانوں کے الفاظ کی آمد بڑھ گئی ہے۔
- میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے تلفظ اور املا پر نیا اثر ڈالا ہے۔
- بھارت اور پاکستان میں اردو کی مختلف معیاری صورتیں وجود میں آگئی ہیں۔
تاہم تعلیمی اداروں اور مقتدرہ قومی زبان جیسی تنظیموں نے کچھ اصولی رہنما خطوط مرتب کیے ہیں، مثلاً “اردو املا نامہ”۔ لیکن ان پر بھی مکمل اتفاقِ رائے پیدا نہیں ہو سکا۔
اردو املا اور تلفظ کا مسئلہ ایک لسانی، تہذیبی اور تعلیمی مسئلہ ہے۔ لسانی محققین نے اپنی اپنی بصیرت کے مطابق اس پر رائے دی ہے۔ کچھ روایت کے قائل ہیں، کچھ اصلاح کے۔ بعض کے نزدیک تلفظ کو اصل اہمیت حاصل ہے، بعض کے نزدیک رسم الخط کی تاریخی اساس کو۔
تنقیدی مطالعہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اردو کو ایسے املائی اصولوں کی ضرورت ہے جو ایک طرف اس کی تہذیبی روایت کو قائم رکھیں اور دوسری طرف عوامی فہم اور تعلیمی سہولت کو بھی پیشِ نظر رکھیں۔ یکسر روایت پسندی یا محض اصلاح پسندی دونوں افراط و تفریط ہیں۔ ایک متوازن رویہ ہی اردو کے لیے بہتر ثابت ہوگا۔