بیسویں صدی اردو افسانے کے ارتقا کی صدی کہی جا سکتی ہے، کیونکہ اس دوران مختلف ادبی تحریکوں اور رجحانات نے اس صنف کو نئی جہات اور اسلوب عطا کیے۔ حقیقت نگاری کی تحریک، جس کے نمایاں نمائندے پریم چند تھے، نے اردو افسانے کو زندگی کے تلخ حقائق سے روشناس کرایا اور متوسط طبقے کے مسائل، غربت، سماجی ناہمواریوں اور طبقاتی کشمکش کو موضوع بنایا۔ ترقی پسند تحریک نے اس میں مزید شدت پیدا کی اور منٹو، بیدی، اور کرشن چندر جیسے افسانہ نگاروں نے سماجی ناانصافی، استحصال، جنسی نابرابری، اور سامراجی جبر کے خلاف اپنے قلم کو ہتھیار بنایا۔ قیامِ پاکستان کے بعد اردو افسانہ نفسیاتی اور علامتی رجحانات کی طرف مائل ہوا، جہاں انتظار حسین اور غلام عباس جیسے افسانہ نگاروں نے داستانوی طرز، اساطیری عناصر، اور تہذیبی زوال کے موضوعات کو اپنایا۔ جدیدیت کی تحریک نے بیانیے میں انفرادیت، تجریدیت اور علامت نگاری کو فروغ دیا، اور انور سجاد، سلیم الرحمان، اور بلراج مینرا جیسے لکھاریوں نے اسلوبیاتی تجربات کیے۔ بعد ازاں، مابعد جدیدیت کے زیرِ اثر اردو افسانے میں بین المتنی حوالہ جات، متن کی کثیر الجہتی، اور حقیقت و فکشن کی آمیزش جیسے رجحانات شامل ہوئے، جس سے اس صنف میں ایک نئی تازگی پیدا ہوئی۔ یوں بیسویں صدی کی ادبی تحریکوں اور رجحانات نے اردو افسانے کو فکری، اسلوبی اور موضوعاتی لحاظ سے مسلسل وسعت دی اور اسے عالمی ادب کے معیارات سے ہم آہنگ کیا۔