Logo

کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

اردو افسانے میں معاشرتی ناانصافیوں کا تجزیاتی مطالعہ

اردو افسانہ اپنے آغاز سے ہی معاشرتی ناہمواریوں اور ناانصافیوں کو اجاگر کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ رہا ہے۔ معاشرتی ناانصافیوں کا موضوع اردو افسانے میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ یہ صنف عوامی زندگی کے حقیقی مسائل کی تصویر کشی کرتی ہے اور ان عوامل کو بے نقاب کرتی ہے جو سماج میں ظلم، جبر اور استحصال کو فروغ دیتے ہیں۔ ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر لکھے جانے والے افسانے خاص طور پر طبقاتی تقسیم، جاگیرداری نظام، سرمایہ دارانہ استحصال، مزدوروں اور کسانوں کی بدحالی، عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک، اور سماجی ناانصافی کے دیگر پہلوؤں کو بے نقاب کرتے ہیں۔ سعادت حسن منٹو، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، اور احمد ندیم قاسمی جیسے افسانہ نگاروں نے اپنی کہانیوں میں سماج کے دبے کچلے طبقے کی محرومیوں اور ان کے حقوق کی پامالی کو نہایت موثر انداز میں پیش کیا۔ مثلاً، منٹو کے افسانے استحصالی نظام اور اخلاقی اقدار کی دوہری پالیسیوں پر شدید تنقید کرتے ہیں، جبکہ کرشن چندر کے افسانے جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کی تلخ حقیقتوں کو آشکار کرتے ہیں۔ اردو افسانے میں خواتین کے ساتھ روا رکھے جانے والے سماجی مظالم بھی ایک اہم موضوع رہے ہیں، جہاں عصمت چغتائی اور واجدہ تبسم جیسی افسانہ نگاروں نے عورتوں کے مسائل، صنفی امتیاز اور سماجی استحصال پر روشنی ڈالی۔ جدید اردو افسانہ بھی اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے، بے روزگاری، مہنگائی، سیاسی عدم استحکام، کرپشن اور سماجی ناہمواریوں کو موضوع بنا رہا ہے۔ محمد حمید شاہد، خالدہ حسین اور مشرف عالم ذوقی جیسے جدید افسانہ نگاروں نے گلوبلائزیشن کے اثرات، نواستعماری رجحانات اور تیزی سے بدلتے سماجی ڈھانچے میں عام انسان کی مشکلات کو اپنی تحریروں میں جگہ دی۔ ان افسانوں میں کردار نہ صرف اپنے حالات سے نبرد آزما ہوتے ہیں بلکہ ایک ایسے سماجی نظام کی نشاندہی کرتے ہیں جو ناانصافی کی بنیاد پر استوار ہے۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں