اردو افسانے میں علامت نگاری نے اظہار کے دائرے کو وسعت دی اور کہانی کو محض واقعاتی بیان سے نکال کر تہہ دار معنویت عطا کی۔ علامت نگاری کا مقصد ایسے اشاروں اور تشبیہوں کے ذریعے گہری حقیقتوں کو ظاہر کرنا ہے جو بظاہر سادہ نظر آتے ہیں لیکن ان میں پیچیدہ مفاہیم چھپے ہوتے ہیں۔ غلام عباس کے افسانے “آنندی” اور انتظار حسین کے افسانوں میں علامتی انداز نمایاں ہیں، جہاں کہانی کے ظاہری کردار اور واقعات کے پیچھے سماجی، سیاسی اور تہذیبی مسائل کی گہرائی کو اجاگر کیا گیا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد علامت نگاری نے اردو افسانے میں اور زیادہ اہمیت حاصل کی، کیوں کہ اس کے ذریعے مصنفین نے تہذیبی زوال، ہجرت، اور شناخت کے بحران کو بیان کیا۔ جدید اردو افسانے میں علامتیں انسانی نفسیات، سماجی تضادات، اور روحانی تلاش کو پیش کرنے کا ذریعہ بنیں۔ اس تکنیک نے افسانے کو نہ صرف فکری طور پر مضبوط کیا بلکہ قارئین کو کہانی کے پوشیدہ معانی تلاش کرنے کی دعوت دی۔ علامت نگاری نے اردو افسانے کو عالمی ادب کے تقاضوں کے قریب کیا اور اسے ایک فنکارانہ گہرائی عطا کی۔