اردو افسانہ اردو ادب کی ایک اہم نثری صنف ہے جو بیسویں صدی میں اپنے فکری، فنی اور تہذیبی ارتقا کے ساتھ نمایاں ہوئی۔ افسانہ دراصل ایک مختصر بیانیہ کہانی ہوتی ہے جو کسی ایک مرکزی خیال، کردار، واقعے یا تجربے کے گرد گھومتی ہے اور جس کا مقصد قاری کے احساسات و خیالات کو جھنجھوڑنا، زندگی کے کسی گوشے کو اجاگر کرنا یا کسی تہذیبی، سماجی یا نفسیاتی مسئلے پر روشنی ڈالنا ہوتا ہے۔ اردو میں افسانے کا آغاز انیسویں صدی کے اواخر میں ہوا، مگر اسے ایک باقاعدہ صنف کی حیثیت بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں حاصل ہوئی۔ پریم چند کو اردو افسانے کا اولین حقیقی فنکار سمجھا جاتا ہے جنہوں نے افسانے کو محض قصہ گوئی سے نکال کر زندگی کے سماجی اور اخلاقی مسائل سے جوڑا۔
ابتدائی افسانہ نگاروں جیسے پریم چند، سعادت حسن منٹو، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی اور عصمت چغتائی نے اردو افسانے کو فکری وسعت، کرداروں کی گہرائی، اور حقیقت نگاری کے رنگ عطا کیے۔ ترقی پسند تحریک نے افسانے کو ایک نظریاتی سمت بھی دی، جس کے نتیجے میں طبقاتی جدوجہد، معاشی ناہمواری، عورت کے مسائل، اور نوآبادیاتی نظام کے خلاف مزاحمت جیسے موضوعات اردو افسانے کا حصہ بنے۔ بعد ازاں قرۃ العین حیدر، احمد ندیم قاسمی، انتظار حسین، انور سجاد اور خالدہ حسین جیسے لکھنے والوں نے جدیدیت اور علامت نگاری کے ذریعے افسانے کو فکری و فنی گہرائی دی۔
اردو افسانہ وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف موضوعات کے لحاظ سے وسعت اختیار کرتا رہا بلکہ اسلوب اور ساخت میں بھی تجربات کیے گئے۔ بیانیہ، مکالمہ، داخلی تجزیہ، تمثیل، اور علامت جیسے فنی وسائل نے افسانے کو ایک مکمل اور ہمہ گیر صنفِ ادب بنا دیا۔ اردو افسانے نے دیہی زندگی، شہری مسائل، عورت کی نفسیات، سیاسی تبدیلیاں، ہجرت اور شناخت کے بحران جیسے موضوعات کو اپنی گرفت میں لیا۔ آج کے دور میں بھی افسانہ نگار نئے سماجی، سیاسی، اور ڈیجیٹل دور کے مسائل کو کہانی کی صورت میں بیان کر کے قاری کو ایک نئی فکری بصیرت فراہم کر رہے ہیں۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ اردو افسانہ ایک زندہ، متحرک اور مسلسل ارتقاء پذیر صنف ہے جو بدلتے ہوئے زمانے، معاشرے اور انسان کے داخلی و خارجی تجربات کو نہایت فنکارانہ انداز میں پیش کرتا ہے، اور یہی اسے اردو ادب کا ایک نہایت اہم، مؤثر اور دل کے قریب صنف بنا دیتا ہے۔
اردو افسانہ، جو بیسویں صدی کے آغاز سے ایک مختصر مگر مؤثر بیانیہ صنف کے طور پر اُبھرا، جلد ہی بدلتے ہوئے سماجی، معاشی اور تہذیبی حقائق کا آئینہ بن گیا۔ اس صنف میں جہاں دیہی اور نیم دیہی زندگی کی جھلکیاں موجود ہیں، وہیں شہری زندگی کے تضادات، پیچیدگیوں اور مسائل کی نہایت گہری اور باریک بین عکاسی بھی کی گئی ہے۔ جیسے جیسے برصغیر میں شہری آبادی بڑھی، ہجرت، صنعتی ترقی، متوسط طبقے کی بے اطمینانی، معاشی جدوجہد، گھٹن، تنہائی، جنسی اضطراب، اقدار کا زوال، اور افراد کی باہمی اجنبیت جیسے مسائل نے شدت اختیار کی، اردو افسانہ نگاروں نے ان مسائل کو نہ صرف موضوع بنایا بلکہ ان پر فکری و جمالیاتی گرفت کے ذریعے قارئین کو جھنجھوڑنے کا کام بھی کیا۔
شہری زندگی کا پہلا بڑا مسئلہ اجنبیت اور تنہائی ہے، جسے سعادت حسن منٹو، انتظار حسین، اور احمد ندیم قاسمی جیسے افسانہ نگاروں نے نہایت خوبی سے بیان کیا۔ منٹو کے افسانے شہری زندگی کی اس داخلی بے چینی کو نمایاں کرتے ہیں جہاں فرد ہجوم میں بھی تنہا ہے، خواہ وہ “خالی بوتلیں خالی ڈبے” ہو یا “ٹھنڈا گوشت” – شہری زندگی کا فرد عدم تحفظ، بے حسی اور بے یقینی کا شکار ہے۔ منٹو کے کردار عموماً ان ماحولوں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں شہروں کی چکاچوند میں اخلاقی تاریکی چھپی ہوئی ہوتی ہے، اور انسان صرف جسم بن کر رہ جاتا ہے۔
اسی طرح قرۃ العین حیدر نے “سیتا ہرن” اور “پت جھڑ کی آواز” جیسے افسانوں میں شہری عورت کی داخلی کشمکش، تعلیم یافتہ متوسط طبقے کی بے مائیگی، اور تیزی سے بدلتے ہوئے سماجی نقشے کو نہایت لطیف اور فکری انداز میں پیش کیا۔ ان کے ہاں شہری عورت، محض مظلوم یا محکوم نہیں بلکہ سوال کرنے والی، شعور یافتہ اور سماجی تضادات سے نبردآزما کردار ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ طبقاتی تفاوت اور معاشی ناہمواری ہے، جس نے شہری زندگی کو منتشر اور غیر متوازن بنا دیا ہے۔ غلام عباس کے افسانے، خاص طور پر “آنندی”، ایک بظاہر سادہ بیانیے کے ذریعے شہری نظام میں چھپی ہوئی منافقت، اخلاقی زوال اور اقتدار کے کھیل کو سامنے لاتے ہیں۔ ان کے ہاں کردار صرف فرد نہیں بلکہ ایک پورے شہری نظام کا علامتی نمائندہ ہوتا ہے۔
شہر میں خواتین کے مسائل بھی خاصی شدت سے اردو افسانے کا موضوع بنے۔ عصمت چغتائی، حجاب امتیاز علی، اور بعد ازاں کشور ناہید، فہمیدہ ریاض اور نور الہدیٰ شاہ نے شہری عورت کی شناخت، آزادی، جنسی استحصال، اور معاشرتی توقعات کے تضاد کو موضوع بنایا۔ عصمت کا “لحاف” ہو یا “دو ہاتھ”، ان میں عورت کی داخلی خواہشات، معاشرتی گھٹن اور جنسی جبر کی گہری عکاسی موجود ہے۔
معاصر افسانہ نگاروں جیسے کہ محمد حمید شاہد، حسن منظر، خالدہ حسین، اسد محمد خان اور علی اکبر ناطق نے بھی شہری زندگی میں تشدد، دہشت گردی، مذہبی انتہا پسندی، بیروزگاری، منشیات، اور شناخت کے بحران جیسے مسائل کو اپنے افسانوں میں نہایت جدید بیانیے اور فنکاری کے ساتھ برتا ہے۔ ان افسانوں میں زبان کا استعمال، فضا کی تشکیل، اور بیانیہ کی تکنیک اس بات کی غماز ہے کہ شہری زندگی اب محض جمالیاتی یا رومانی تجربہ نہیں بلکہ فکری اور وجودی الجھنوں کا میدان ہے۔
انتظار حسین کے افسانے شہری زندگی کی شکستہ شناخت، ہجرت کے زخم، اور ثقافتی کٹاؤ کے حوالے سے ایک روحانی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ ان کے کردار جدید شہری ہجوم میں اپنی جڑیں کھو چکے ہیں، اور ماضی کے کھنڈرات میں نئی شناخت کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔
اسی طرح جدید افسانہ نگاروں نے موبائل کلچر، سوشل میڈیا، ڈیجیٹل تنہائی، اور عارضی رشتوں جیسے مسائل کو بھی موضوع بنایا ہے، جن کی جھلک حالیہ افسانوی ادب میں محسوس کی جا سکتی ہے۔
نتیجتاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو افسانے نے شہری زندگی کے مسائل کو نہ صرف سنجیدگی سے دریافت کیا بلکہ ان کو تخلیقی اور فکری سطح پر برت کر ایسا بیانیہ تشکیل دیا جو سماج کے شعور کو جھنجھوڑنے کی قوت رکھتا ہے۔ شہری زندگی اردو افسانے میں محض پس منظر نہیں بلکہ ایک فعال کردار ہے، جو فرد کی داخلی اور خارجی دنیا کو مسلسل بدلتا، آزماتا، اور تشکیل نو کرتا ہے۔ اردو افسانہ آج بھی شہری زندگی کی بدلتی ہوئی پرتوں کو کھنگال رہا ہے، اور یہ سلسلہ جاری ہے، کیونکہ شہر بذاتِ خود ایک زندہ، متحرک، اور پیچیدہ حقیقت ہے، جسے صرف فن کے ذریعے ہی مکمل طور پر سمجھا اور بیان کیا جا سکتا ہے۔