اردو افسانے میں خیر و شر کا تصور ایک اہم اخلاقی اور فلسفیانہ موضوع ہے، جو مختلف افسانہ نگاروں کے کام میں مختلف طریقوں سے پیش کیا گیا ہے۔ اس میں خیر کا تصور عموماً انسان کی اخلاقی خوبیوں، ہمدردی، انصاف اور روحانیت سے جڑا ہوتا ہے، جبکہ شر کا تصور جبر، بدعنوانی، ظلم، اور بدی کی قوتوں سے منسلک کیا جاتا ہے۔ اردو افسانوں میں خیر و شر کا تقابل اکثر کرداروں کی داخلی کشمکش کے ذریعے دکھایا گیا ہے، جہاں ایک طرف فرد کی نیک نیتی اور دوسروں کے ساتھ انصاف کی خواہش ہوتی ہے، تو دوسری طرف اس کی زندگی میں شر کی طاقتیں یا سماجی برائیاں رکاوٹ بنتی ہیں۔ مثال کے طور پر، سعادت حسن منٹو کے افسانے “کاف کا درخت” میں انسانیت کی فطری اچھائی اور ظلم کے درمیان تصادم کو پیش کیا گیا ہے۔ اسی طرح، احمد ندیم قاسمی اور اسلم فرخ کے افسانوں میں بھی خیر و شر کے تصورات کی جھلکیاں ملتی ہیں، جہاں ہر کردار اپنے اعمال کے ذریعے ان دونوں قوتوں کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اردو افسانے میں خیر و شر کا تصور نہ صرف اخلاقی بنیادوں پر بحث کرتا ہے بلکہ انسان کے داخلی و بیرونی تضادات کو بھی اجاگر کرتا ہے، جس سے قاری کو انسانیت کی اصل حقیقت اور اس کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔