اردو افسانے میں ثقافتی مکانیت کا تصور اس امر کو واضح کرتا ہے کہ ادب کس طرح کسی مخصوص تہذیب، جغرافیے اور تاریخی پس منظر کو اپنے بیانیے میں شامل کرتا ہے، اور گندھارا تہذیب کے تجزیاتی مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اردو افسانہ نگاروں نے اس قدیم تہذیب کے ثقافتی، تاریخی اور جمالیاتی پہلوؤں کو اپنے افسانوی بیانیے میں کیسے برتا ہے۔ گندھارا تہذیب جو بدھ مت، ہند-یونانی اثرات اور فنونِ لطیفہ کی آمیزش کی وجہ سے مشہور ہے، اردو افسانوں میں اکثر ایک علامتی اور استعاراتی پس منظر کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ کئی افسانہ نگاروں نے اس تہذیب کے آثار، مجسمہ سازی، مذہبی روایات اور زوال کے اسباب کو اپنی تحریروں میں سمو کر ایک تہذیبی شعور اجاگر کیا ہے، جہاں گندھارا محض ایک تاریخی حوالہ نہیں بلکہ وقت کے تغیرات، شناخت کے بحران اور ثقافتی یادداشت کا استعارہ بن جاتا ہے۔ اردو افسانوں میں گندھارا تہذیب کی جھلک بعض اوقات براہِ راست تاریخی افسانوں میں دکھائی دیتی ہے، جبکہ بعض اوقات جدید انسان کے وجودی مسائل کو سمجھنے کے لیے اس کا استعمال ایک فکری پس منظر کے طور پر کیا جاتا ہے۔ ثقافتی مکانیت کے حوالے سے یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ گندھارا تہذیب کے آثار کو علامتی انداز میں زوال پذیر تہذیبوں، ثقافتی استحصال اور تاریخی تسلسل کی کڑیاں جوڑنے کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ اس مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اردو افسانہ نہ صرف تاریخی حوالوں کو بیان کرنے کا ذریعہ ہے بلکہ یہ ماضی کی تہذیبوں کو جدید فکری تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کے لیے ایک موثر ادبی وسیلہ بھی فراہم کرتا ہے۔