کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

اردو افسانے ميں ابنارمل کردار

اردو افسانہ نگاری کا دائرہ انسانی نفسیات کے گہرے مشاہدے اور سماجی پیچیدگیوں کے اظہاری پیرایوں سے لبریز ہے۔ اس صنف میں جہاں عام انسانی جذبات، مسائل اور رویے بیان کیے گئے ہیں، وہیں ابنارمل یا غیر معمولی کرداروں کی عکاسی نے بھی نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ ابنارمل کردار سے مراد وہ افراد ہیں جن کی ذہنی کیفیت، جذباتی توازن یا سماجی رویے عام انسانوں سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔ ان کرداروں کی موجودگی افسانے کو نہ صرف نفسیاتی گہرائی عطا کرتی ہے بلکہ انسانی فطرت کے پیچیدہ پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے، جو بسا اوقات معاشرتی بے حسی، ظلم، جبر یا محرومی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔

اردو افسانے میں ابنارمل کرداروں کا ظہور خاص طور پر ترقی پسند تحریک کے بعد نمایاں طور پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی اور انتظار حسین جیسے فنکاروں نے انسانی ذہن کی تہہ در تہہ کیفیتوں کو بڑی جرأت اور ہنر مندی سے بیان کیا۔ منٹو کے افسانے “ٹھنڈا گوشت”، “بو”، اور “ٹوبہ ٹیک سنگھ” میں پیش کیے گئے کردار صرف نفسیاتی الجھنوں کا شکار نہیں بلکہ پورے معاشرے کے رویوں کا عکاس بھی ہیں۔ “ٹوبہ ٹیک سنگھ” میں پاگل خانے کے کردار درحقیقت تقسیم ہند کی سیاسی و سماجی افراتفری کے ترجمان بن جاتے ہیں۔ بشن سنگھ کی خاموش چیخیں دراصل برصغیر کی اجتماعی نفسیات کی عکاس ہیں۔

اسی طرح عصمت چغتائی کے افسانوں میں بھی ایسے کردار نظر آتے ہیں جو روایتی سماجی اقدار سے ہٹ کر سوچتے اور جیتے ہیں۔ ان کا افسانہ “لحاف” ایک نفسیاتی بحران کا اظہاری نمونہ ہے، جہاں مرکزی کردار کی ذہنی کیفیت اور اس کے تحت پروان چڑھنے والی خواہشات معاشرتی گھٹن اور جبر کا عکس پیش کرتی ہیں۔ چغتائی نے نسائی نفسیات کو نہایت گہرائی سے بیان کیا اور ان کرداروں کی تشکیل کی جو مرد مرکز معاشرے میں غیر معمولی سمجھے جاتے تھے۔

راجندر سنگھ بیدی کا افسانہ “گرم کوٹ” ایک بوڑھے شخص کے جذبات اور جذباتی محرومی کو ابھارتا ہے جو بظاہر معمولی کردار ہے مگر اس کی محرومیوں نے اسے جذباتی سطح پر ابنارمل بنا دیا ہے۔ وہ کوٹ جو وہ اپنے بدن پر نہیں، اپنے جذبات پر اوڑھتا ہے، معاشرتی بے حسی اور جذباتی ناآسودگی کا گہرا استعارہ ہے۔

ابنارمل کرداروں کے ذریعے افسانہ نگار نہ صرف نفسیاتی پیچیدگیوں کو بیان کرتے ہیں بلکہ وہ سماج کے ان طبقات کو بھی زبان دیتے ہیں جو عام طور پر خاموش ہوتے ہیں۔ مثلاً احمد ندیم قاسمی کے افسانے “مسافر” میں ایک ایسے شخص کی داستان ہے جو مسلسل سفر میں رہ کر خود اپنی شخصیت سے کٹ چکا ہے۔ وہ ایک سماجی المیے کا استعارہ بن جاتا ہے، جہاں انسان اپنی شناخت کھو بیٹھتا ہے اور ایک ابنارمل کیفیت میں جیتا ہے۔

محسن خان، خالد فتح محمد اور انور سجاد جیسے افسانہ نگاروں نے بھی ایسے کردار تراشے جو نفسیاتی خلش، ذہنی دباؤ، خوف، احساس کمتری یا عدم تحفظ جیسے عناصر کا شکار ہیں۔ ان کرداروں کی نمائندگی جدید زندگی کی پیچیدگیوں، مشینی زندگی کی بے روح فضا، اور معاشرتی انتشار کے پس منظر میں کی گئی ہے۔ انور سجاد کا افسانہ “خوشبو کی موت” اس کی عمدہ مثال ہے، جہاں مرکزی کردار اپنے گرد پھیلے تعفن، سناٹے اور شکستہ خوابوں میں گم ہو کر ایک ایسی کیفیت سے گزرتا ہے جو عام نہیں، بلکہ ذہنی خلفشار کا شکار ہوتی ہے۔

اردو افسانہ صرف جذبات یا واقعات کا بیان نہیں بلکہ یہ ایک فکری جہت بھی رکھتا ہے۔ اس میں ابنارمل کردار دراصل معاشرتی نظام پر سوالیہ نشان بن کر ابھرتے ہیں۔ وہ سماج کی خرابیوں، تعصبات، ناانصافیوں اور ذہنی جبر کے خلاف احتجاج بن جاتے ہیں۔ یہ کردار ہمیں آئینہ دکھاتے ہیں کہ جنہیں ہم پاگل، نفسیاتی مریض یا بغاوت کرنے والے سمجھتے ہیں، وہ درحقیقت سماج کے مہذب چہرے پر پڑے نقاب ہٹا کر اصل چہرہ دکھاتے ہیں۔

مزید برآں، اردو افسانے میں ابنارمل کرداروں کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ حقیقت بھی نمایاں ہوتی ہے کہ افسانہ نگار محض تفریح یا جذباتیت کا سہارا نہیں لیتا بلکہ وہ قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ ایسا کردار جو بظاہر ذہنی توازن کھو چکا ہو، وہ درحقیقت ایک حساس دل اور باشعور ذہن رکھتا ہے، جسے سماج نے جھٹلایا ہوتا ہے۔ ان کرداروں کے توسط سے اردو افسانہ انسانی نفسیات کا نفیس مطالعہ بن جاتا ہے۔

یہ بھی اہم ہے کہ افسانہ نگار ان کرداروں کو رومانوی یا سنسنی خیز پیرائے میں پیش کرنے کی بجائے ایک حقیقت پسندانہ اور ہمدردانہ رویے کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ یہی خصوصیت اردو افسانے کو دیگر عالمی ادب کے مقابلے میں ایک منفرد حیثیت عطا کرتی ہے۔ یہاں ابنارمل کردار محض افسانوی رنگ نہیں بلکہ ایک فکری احتجاج، جذباتی صداقت، اور سماجی تجزیے کی بنیاد بنتے ہیں۔

آج کا اردو افسانہ بھی اس روایت کو نبھا رہا ہے۔ موجودہ دور میں دہشت گردی، غربت، بے روزگاری، اور شناخت کے بحران جیسے مسائل نے انسانی نفسیات کو مزید الجھایا ہے۔ نتیجتاً جدید اردو افسانہ نگار مثلاً اصغر ندیم سید، مبین مرزا، اور زاہدہ حنا وغیرہ نے بھی ایسے کردار تراشے ہیں جو نفسیاتی بحران کا شکار ہو کر ابنارمل بنتے ہیں۔ ان کے افسانے آج کے انسان کی الجھنوں، خوف اور احساس محرومی کو پوری شدت سے بیان کرتے ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ اردو افسانے میں ابنارمل کردار ایک علامت بن کر ابھرتے ہیں، جو قاری کو صرف داستان سنانے کے بجائے اسے جھنجھوڑتے ہیں، اسے سوچنے، سوال اٹھانے اور اپنی ذات کے آئینے میں جھانکنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ کردار صرف ادب کا حصہ نہیں بلکہ انسانی معاشرے کی روح کی گواہی ہیں۔ اردو افسانہ نگاری نے ان کرداروں کے ذریعے نہ صرف فنی مہارت کا مظاہرہ کیا ہے بلکہ انسانی شعور کی تہوں کو بے نقاب کرنے کی سعی بھی کی ہے، جو اردو ادب کی ایک بڑی خدمت ہے۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں