کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

اردو ادب یورپ اور امریکہ میں

اردو ادب یورپ اور امریکہ میں ایک تہذیبی، لسانی اور ادبی پُل کا کام کر رہا ہے، جس نے نہ صرف مغربی دنیا میں اردو زبان و ادب کی موجودگی کو ممکن بنایا بلکہ اس کی علمی وسعت، جمالیاتی نزاکت اور فکری گہرائی کو بھی متعارف کرایا۔ برصغیر میں جنم لینے والی یہ زبان جب اپنے بولنے والوں کے ہمراہ ہجرت کر کے یورپ، خاص طور پر برطانیہ، اور امریکہ پہنچی تو اس کے ہمراہ صدیوں کی تہذیبی روایت، کلاسیکی شعری ورثہ، صوفیانہ ادب، ترقی پسند تحریک، اور جدید و مابعد جدید رجحانات بھی سفر کرتے چلے آئے۔ ان نئی سرزمینوں پر اردو ادب کا دائرہ صرف جذباتی وابستگی تک محدود نہیں رہا، بلکہ علمی اداروں، جامعات، ادبی حلقوں، تحقیقی رسالوں، سیمینارز، اور ثقافتی میلوں کے ذریعے اردو ادب نے نہ صرف اپنی جڑیں مضبوط کیں بلکہ مغربی قارئین کو بھی متوجہ کیا۔ اردو زبان کی تدریس، تراجم، تنقیدی مطالعے اور تصنیف و تالیف کی سرگرمیاں یورپ و امریکہ کی علمی دنیا میں اردو کے ادبی تشخص کو مضبوط کر رہی ہیں۔

برطانیہ میں اردو ادب کی موجودگی سب سے نمایاں ہے، جہاں تارکین وطن کی بڑی تعداد نے اردو کو زندہ رکھنے اور فروغ دینے کے لیے تنظیمیں قائم کیں، جیسے “انجمن ترقی اردو (یو کے)”، “ادبی محفل لندن”، اور “بزمِ اردو لندن” وغیرہ۔ ان تنظیموں نے مشاعروں، ادبی نشستوں، کتب میلوں اور اردو ہفتوں کے انعقاد کے ذریعے اس زبان کو ایک ثقافتی شناخت کے طور پر پیش کیا۔ برطانیہ کی جامعات مثلاً “ساؤتھ ایشیا انسٹیٹیوٹ، یونیورسٹی آف لندن”، “یونیورسٹی آف آکسفورڈ” اور “سوہاس یونیورسٹی” میں اردو کو باقاعدہ ایک علمی موضوع کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ یہاں کئی تحقیقی مقالے اردو شاعری، افسانے، تنقید، نسائیت اور ترقی پسند تحریک پر تحریر کیے جا چکے ہیں۔ برطانیہ میں اردو کے معاصر ادیبوں میں عباس علی شاہ، خورشید کامران، اور طاہرہ اقبال جیسے نام شامل ہیں جنہوں نے مغربی تہذیب میں رہتے ہوئے اردو ادب کی کلاسیکی قدروں کو نئے تناظر میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔

امریکہ میں اردو ادب کا ارتقا نسبتاً تاخیر سے ہوا، لیکن یہاں بھی اردو کو ادب اور تحقیق کے شعبے میں نمایاں مقام حاصل ہو چکا ہے۔ امریکہ کی بڑی جامعات جیسے ہارورڈ، ییل، پرنسٹن، اور شکاگو یونیورسٹی میں اردو زبان و ادب کو جنوبی ایشیائی مطالعات کے تحت پڑھایا جا رہا ہے۔ ان اداروں میں اردو کے کلاسیکی متون، جدید شاعری، فکشن، اور تنقید پر تحقیقی کام ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر سی ایم نئیر، فرانسس پرٹچٹ، اور ڈیوڈ میتھیوز جیسے غیر اردو دان اسکالرز نے اردو کو مغربی علمی دنیا میں متعارف کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ میں بسنے والے اردو ادیبوں جیسے رضوان الحق، شاہد علی، اور نوشی گیلانی نے مغربی زندگی، ہجرت، تہذیبی تضاد، نسلی شناخت، اور جذباتی بیگانگی کو اپنی تحریروں میں سمو کر اردو ادب میں ایک نئی لہر پیدا کی۔

یورپ کے دیگر ممالک، جیسے جرمنی، فرانس، ناروے، ہالینڈ، اور ڈنمارک میں بھی اردو ادب کی موجودگی قابلِ ذکر ہے۔ جرمنی میں ڈاکٹر انیتا مائیر اور ڈاکٹر یوہانا نے اردو شاعری اور کلاسیکی ادب پر تحقیقی کام کیا ہے۔ فرانس میں پیرس کی اردو سوسائٹی اردو مشاعروں اور مطالعہ جاتی گروپوں کے ذریعے اردو کے فروغ میں مصروف ہے۔ ناروے اور سویڈن میں اردو بولنے والے افراد کی تعداد کم ہے، لیکن وہ اردو کو نہ صرف اپنی تہذیبی شناخت کے طور پر محفوظ رکھے ہوئے ہیں بلکہ اپنے بچوں کو اردو زبان سکھانے کے لیے بھی اسکولوں اور آن لائن پلیٹ فارمز پر انحصار کر رہے ہیں۔

ترجمہ ایک ایسا ذریعہ رہا ہے جس کے ذریعے اردو ادب نے مغربی دنیا میں داخل ہونے کا راستہ بنایا۔ غالب، اقبال، فیض، منٹو، عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین جیسے ادیبوں کی تحریریں انگریزی، جرمن، فرانسیسی، ہسپانوی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ ہو کر مغربی قارئین کے لیے دستیاب ہو چکی ہیں۔ ان تراجم کے ذریعے نہ صرف اردو ادب کی موضوعاتی وسعت بلکہ اس کی اسلوبیاتی جدت، شعری جمالیات، اور فکری گہرائی کو بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا ہے۔ “ٹائم” اور “نیویارک ریویو آف بکس” جیسے جرائد میں اردو ادیبوں کی تخلیقات کا ذکر آنا اس بات کی علامت ہے کہ اردو ادب اب عالمی ادبی منظرنامے کا حصہ بن چکا ہے۔

دیاسپورا ادب یعنی ہجرت کے پس منظر میں تخلیق پانے والے اردو ادب نے یورپ اور امریکہ میں ایک نئی جہت پیدا کی ہے۔ یہ ادب ہجرت کے کرب، شناخت کی کشمکش، دوہری تہذیب کے تجربات، اور وطن سے جدائی کے دکھ کو بیان کرتا ہے۔ یہ نہ صرف اردو زبان کی داخلی توانائی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اس کی بین الثقافتی مطابقت اور آفاقی اپیل کو بھی واضح کرتا ہے۔ اردو دیاسپورا ادب میں جہاں جذباتی وابستگی، یادیں، اور تہذیبی نوحہ گری ہے، وہیں نئی نسل کے اردو مصنفین میں ایک نیا بیانیہ بھی ابھر رہا ہے جو مغربی سماج، جدید فکر، اور نسلی و صنفی شناخت کے تناظر میں اردو کے لسانی، فکری، اور اسلوبی امکانات کو نئے رنگ عطا کرتا ہے۔

معاصر زمانے میں ڈیجیٹل پلیٹ فارمز، سوشل میڈیا، زوم ادبی نشستیں، یوٹیوب چینلز، اور آن لائن ادبی مجلے اردو ادب کے عالمی فروغ میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اب امریکہ یا یورپ میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی پاکستان، ہندوستان یا کسی اور ملک کے ادیبوں سے براہ راست جُڑ سکتے ہیں، ان کی تخلیقات پر تبصرہ کر سکتے ہیں، اور مشترکہ ادبی سرگرمیوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔ آن لائن جرائد جیسے “ہم سب”، “ریختہ”، “ادبیات” اور “آج” کے ذریعے اردو ادب کی عالمی سطح پر رسائی آسان ہو چکی ہے۔

خلاصہ یہ کہ اردو ادب اب یورپ اور امریکہ میں صرف ایک “ماضی کی زبان” یا “تارکین وطن کی شناخت” نہیں بلکہ ایک زندہ، متحرک، اور فکری زبان ہے جو عالمی ادب کے افق پر اپنی پہچان بنا چکی ہے۔ اس کی بنیاد اس کے کلاسیکی ادب، ترقی پسند رجحانات، نسائی شعور، دیاسپورا بیانیہ اور عصری فکری جدوجہد میں ہے۔ آنے والے وقت میں اگر ادارہ جاتی سپورٹ، ترجمہ کی تسلسل، اور نئی نسل میں اردو زبان سے وابستگی کو فروغ دیا جائے تو اردو ادب مغرب میں بھی وہی فکری رفعت حاصل کر سکتا ہے جو اس نے برصغیر میں پائی۔ یوں اردو ادب نہ صرف اپنی تہذیبی بنیادوں کو زندہ رکھے گا بلکہ عالمی فکری ورثے کا ایک فعال اور باوقار حصہ بھی بن جائے گا۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں