اردو ادب میں نو تاریخیت (New Historicism) کے نظری و اطلاقی مباحث ادبی تنقید کے میدان میں ایک اہم اضافہ ہیں، جو ادبی متنوں کو تاریخی، سماجی اور ثقافتی تناظر میں پرکھنے کا ایک جدید زاویہ پیش کرتے ہیں۔ نو تاریخیت کے مطابق، ادبی تخلیقات کو صرف فنکارانہ شاہکار نہیں سمجھا جاتا، بلکہ انہیں ان کے تاریخی پس منظر، طاقت کے تعلقات، اور معاشرتی ساخت کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ یہ نظریہ ادب اور تاریخ کے باہمی رشتے کو گہرائی سے سمجھنے پر زور دیتا ہے، جس کے تحت ادبی متن تاریخی حالات اور سماجی قوتوں کے اثرات کو ظاہر کرتے ہیں۔ اردو ادب میں نو تاریخیت کے اطلاقی مطالعے میں غالب، اقبال، منٹو، اور دیگر اہم ادبی شخصیات کے کاموں کو ان کے تاریخی اور سماجی تناظر میں پرکھا گیا ہے۔ مثلاً، غالب کی شاعری کو مغلیہ دور کے زوال اور نوآبادیاتی دور کے آغاز کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے، جبکہ منٹو کے افسانے تقسیم ہند کے المیے اور اس کے سماجی اثرات کو اجاگر کرتے ہیں۔ نو تاریخیت کے تحت یہ مطالعہ نہ صرف ادبی متنوں کے نئے معانی کھولتا ہے بلکہ انہیں تاریخی اور سماجی حقیقتوں سے جوڑ کر ایک وسیع تر فکری تناظر بھی فراہم کرتا ہے۔