اردو ادب میں طنز و مزاح کی روایت نہایت قدیم، متنوع اور بھرپور ہے۔ اس کا دائرہ محض قہقہہ یا تفریح تک محدود نہیں بلکہ یہ انسانی معاشرت، سیاسی شعور، تہذیبی رجحانات اور سماجی ناہمواریوں کے خلاف ایک بلیغ احتجاج، باریک بینی سے کی گئی تنقید اور تخلیقی اظہار کا ایسا موثر ذریعہ رہا ہے جس نے ادب کو نہ صرف معنویت بخشی بلکہ قاری کو فکر و فہم کی نئی جہتیں بھی عطا کیں۔ اردو کے ابتدائی نقوش میں مزاحیہ اور طنزیہ رجحانات کا اظہار ان نصوص میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جو عربی و فارسی کی روایات سے متاثر ہو کر اردو نثر و نظم کی ابتدائی شکلوں میں ڈھلیں۔ تاہم اردو میں طنز و مزاح کی باقاعدہ تشکیل اس وقت شروع ہوئی جب ادب محض عشقیہ اور رومانوی مضامین سے آگے نکل کر انسانی زندگی کے دیگر پہلوؤں کا احاطہ کرنے لگا۔ ابتدا میں طنز و مزاح کا دائرہ محدود تھا اور اسے صرف تفنن طبع یا دربار داری کی ایک صورت سمجھا جاتا تھا، مگر رفتہ رفتہ اس صنف نے سنجیدہ ادبی شناخت حاصل کی۔
طنز دراصل کسی شخص، گروہ، نظریے یا رویے کی خامیوں، تضادات یا ناپسندیدہ پہلوؤں پر غیرمستقیم مگر گہری تنقید کا نام ہے، جبکہ مزاح کا مقصد قاری یا سامع کو خوشگوار احساس دلانا ہوتا ہے، اگرچہ دونوں میں خط فاصل باریک ہے۔ اردو کے کلاسیکی ادب میں مثنویات، قصائد اور ہجویات میں طنز و مزاح کے بے شمار نمونے موجود ہیں۔ خصوصاً میر تقی میر، سودا، انشاء اللہ خاں انشاء اور آتش جیسے شعراء نے اپنی شاعری میں طنز و مزاح کو اس قدر بلیغ انداز میں برتا کہ ان کی تخلیقات آج بھی کلاسیکی ادب کا حصہ سمجھی جاتی ہیں۔ میرزا رفیع سودا کی ہجو نگاری تو اردو ادب میں ایک مثال بن گئی جس نے اس صنف کو نہ صرف ادبی وقار بخشا بلکہ اسے جمالیاتی معیار بھی عطا کیا۔
نثر کے میدان میں طنز و مزاح کی شروعات فورٹ ولیم کالج کی کاوشوں سے ہوئی جہاں عام فہم زبان میں قصے، حکایتیں اور تمثیلیں لکھی گئیں۔ سر سید احمد خان کے عہد میں یہ رجحان مزید واضح ہوا، خاص طور پر ان کے رفقاء جیسے مولوی نذیر احمد، الطاف حسین حالی اور خاص طور پر رشید احمد صدیقی نے طنز و مزاح کو مقصدی ادب کا اہم جزو بنایا۔ اسی دور میں اردو طنز و مزاح کی سب سے بلند قامت شخصیت، اکبر الہ آبادی سامنے آتے ہیں جنہوں نے سیاسی، سماجی اور تہذیبی انحطاط کو اپنی شاعری کے نشتر سے نشانہ بنایا۔ اکبر کے طنز میں جو درد، گہرائی اور بصیرت پائی جاتی ہے، وہ اس بات کا مظہر ہے کہ طنز صرف تمسخر یا طعنہ نہیں بلکہ فکر انگیز احتجاج بھی ہے۔ اکبر نے مغربی تقلید، جدید تعلیم کے اثرات اور تہذیبی بحران کو طنز کے قالب میں ڈھال کر ایسا اسلوب اختیار کیا جسے آج بھی بے ساختہ اور لازوال تسلیم کیا جاتا ہے۔
بیسویں صدی میں جب نثر نے ترقی کی، خاص طور پر افسانے اور ناول کی اصناف نے زور پکڑا تو طنز و مزاح نے ان اصناف میں بھی اپنے قدم جمائے۔ کرنل محمد خان، ابن انشاء، مشتاق احمد یوسفی، پطرس بخاری، مرزا فرحت اللہ بیگ، اور شفیق الرحمن جیسے ادیبوں نے اردو نثر میں مزاح کو عروج پر پہنچایا۔ ان کی تحریریں محض قہقہہ نہیں بلکہ تہذیبی نرگسیت، روزمرہ کی پیچیدگیوں اور انسانی نفسیات کی آئینہ دار بھی ہیں۔ پطرس کے “مضامین پطرس” میں جو بے ساختگی، برجستگی اور عام زندگی کے مشاہدات کا فنکارانہ اظہار ملتا ہے، وہ اردو نثر کا ایک درخشاں باب ہے۔ یوسفی نے تو مزاح کو ایک نئی زبان، نیا فلسفہ اور نئی تہذیب دی۔ ان کے ہاں مزاح کی تہیں قاری کو نہ صرف محظوظ کرتی ہیں بلکہ ذہنی ارتعاش پیدا کرتی ہیں۔ یوسفی کا اسلوب، ان کے استعارے، تضاد، اور لطیف پیرایہ اظہار ایسا ہے جو مزاح کو محض فن نہیں بلکہ فنِ فکر بنا دیتا ہے۔
طنز و مزاح کا دائرہ اب محض شاعری یا نثر کی روایت تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ ڈرامہ، صحافت، کالم نگاری، حتیٰ کہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا تک پھیل چکا ہے۔ اردو ڈرامے خصوصاً ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے سنہری دور میں طنزیہ و مزاحیہ ڈراموں نے عام آدمی کی زندگی کے المیے کو ہنسی کے آئینے میں دکھایا۔ آغا ناصر، انور مقصود، شوکت صدیقی، اور حسینہ معین جیسے ادیبوں نے روزمرہ کے کرداروں کے ذریعے طنز کو نرمی سے پیش کیا۔ ان کے ہاں مزاح ایک نفیس اخلاقی پیغام کے ساتھ آتا ہے جو قاری یا ناظر کو متاثر کرتا ہے۔ خصوصاً انور مقصود کی تحریریں آج بھی مزاح کی سنجیدہ ترین مثالیں ہیں جن میں معاشرتی بگاڑ، سیاسی زوال اور تہذیبی انحراف پر ہنسی کے پردے میں گہری تنقید کی گئی ہے۔
اردو صحافت میں طنز و مزاح نے کالم نگاری کے ذریعے ایک الگ جہت حاصل کی۔ مشتاق یوسفی، آصف فرخی، سجاد ظہیر اور ابن الحسن جیسے کالم نگاروں نے مزاح کو ایک فکری وسیلہ بنایا۔ ان کے کالم محض تبصرہ نہیں بلکہ سچائی، جرأت اور بصیرت کا نادر امتزاج ہوتے ہیں۔ اردو میں طنز و مزاح نے جہاں تفریح کو نئے معنی دیے، وہیں معاشرتی تنقید، تہذیبی تجزیہ اور فکری آگہی کو بھی پروان چڑھایا۔ آج کے دور میں جب مزاح سطحیت، توہین اور فحاشی کی راہ پر جا رہا ہے، تو یوسفی، پطرس، اکبر، اور فرحت اللہ بیگ کی تحریریں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ اصل مزاح وہی ہے جو تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے قاری کو ہنساتے ہوئے جگا دے۔
آخر میں، یہ کہنا بجا ہوگا کہ اردو ادب میں طنز و مزاح نہ صرف ایک بھرپور اور بامعنی روایت ہے بلکہ یہ ادبی مزاج کا وہ پہلو بھی ہے جس کے ذریعے قوموں کے رویے، شعور اور سماجی مزاحمت کو شناخت ملتی ہے۔ اردو طنز و مزاح محض تفریح نہیں بلکہ ایک فکری اثاثہ ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتا رہا ہے، اور جس کی جڑیں نہ صرف ادب بلکہ معاشرت، تاریخ اور ثقافت میں پیوستہ ہیں۔ آج جب دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، مزاح کا کردار پہلے سے زیادہ اہم ہو چکا ہے، کیونکہ یہ وہ آئینہ ہے جو نہ صرف ہمارے چہروں کو ہنساتا ہے بلکہ ہمیں ہمارے اندر کا عکس بھی دکھاتا ہے۔