کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

اردو ادب اور مابعد نوآبادیات:  منتخب اردو مترجمہ ناولوں کا مابعدنوآبادیاتی تناظر میں تحقیقی جائزہ

نو آبادیاتی نظام سے مراد کسی ایک علاقے کے لوگوں کا دوسرے علاقے میں جا کر اپنی نئی آبادیاں قائم کرنا اور اردگرد کے علاقوں پر قبضہ کر کے اسے توسیع دینا ہے۔ جہاں یہ نوآبادی قائم کی جاتی ہے وہاں کے اصل باشندوں پر قابض گروہ عموماً اپنےقوانین ، معاشرت اور حکومت بھی مسلط کر دیتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ قابض گروہ اور نوآبادی کے اصل باشندوں کے درمیان نا انصافی اور جبر پر مبنی ایک تعلق ہے جس میں اصل باشندوں کا استحصال ہوتا ہے۔نوآبادیاتی نظام کا مقصد اپنے مفادات کی حفاظت اور معیشت کا فروغ ہوتا تھا۔

            اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں ترقی یافتہ ممالک نے غیرترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک کے وسائل پر قبضہ کیااور انھیں اپنامحکوم بنایا۔ اس عمل کو نوآبادیات کہاجاتاہے۔  دنیاکے بہت سے ممالک نوآبادیات کے زیراثررہے۔ ان میں برصغیر، عرب ممالک، افریقہ، مصروغیرہ شامل ہیں۔اٹھارہویں اور انیسویں صدی عیسوی میں انگریز اپنے اقتدار کو تیزی سے بڑھانے لگے۔ یہیں سے برصغیر میں نوآبادیاتی نظام میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ جنگِ پلاسی میں انگریزوں نے اپنے اقتدار کو تیزی سے بڑھانے کے لئے میر جعفر کو اپنے ساتھ ملا کر بنگال کے حکمران نواب سراج الدولہ کو شکست دی۔

 مابعدنوآبادیات کسی بھی خطے سے نوآبادی کے خاتمے کے بعد کی صورت حال کا مطالعہ ہے۔ نوآبادکار، نوآبادی کو جہاں ایک طرف معاشی اور اقتصادی استحصال کا نشانہ بناتے ہیں وہیں اس خطے کی  تہذیب وثقافت اور لوگوں کے نفسیاتی استحصال کا سبب بھی بنتے ہیں اور یہ اثر دیرپا رہتاہے۔ مابعد نوآبادیات میں خارجی اور داخلی دونوں سطحوں پر ان اثرات کا مطالعہ کیاجاتاہے۔ برصغیرمیں نوآبادکاری کا خاتمہ ایک ایسی ہنگامہ خیز صورت حال کے ساتھ ہوا کہ جس میں کروڑوں لوگ بے گھرہوئے اور لاکھوں انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔  برصغیر کی تقسیم کے بعد بھی نوآبادکاروں کا اثرباقی رہااورانتظامی سطح کے ساتھ ساتھ تہذیبی وثقافتی سطح پر بھی اس کے نقوش باقی ہیں۔

            برصغیر کے طول وعرض میں متعدد زبانیں بولی جاتی ہیں ۔ زیر نظرتحقیق میں برصغیر سے تین منتخب زبانوں انگریزی،  بنگلہ اور ہندی کے ایسے ناولوں  کا انتخاب  کیا گیا جن کے اردو میں تراجم ہوچکے ہیں۔

نوآبادیاتی ادب نہ صرف کسی ملک کی تاریخ کے ایک مخصوص دور  اور اس سے منسلک ادب کی طرف اشارہ کرتا ہے بلکہ اس کا تعلق ایک منفرد ادبی ذخیرے سے بھی ہے جس میں  نوآبادیاتی دور کی خصوصیات پائی جاتی ہوں۔ نو آبادیاتی ادب ان حالات میں وجود میں آتا ہے جو نوآبادیاتی تحریر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ نوآبادیاتی ادب سے مراد وہ ادب ہے جو پہلے نوآبادیاتی اور محکوم کیے گئے لوگوں کے ذریعے تخلیق کیا گیا ہو۔   جیسے گیبریل گارشیا مارکیز کا ناول  “تنہائی کے سو سال”، سلمان رشدی کا “آدھی رات کے بچے”،طیب صالح کا “شمال کی جانب ہجرت کا موسم” وغیرہ شامل ہیں۔ نوآبادیاتی ادب ایک وسیع اصطلاح ہے جو سابق نوآبادیاتی دنیا سے تعلق رکھنے والے افراد کے کاموں کے ساتھ ساتھ مغرب میں بسنے والے مختلف اقلیتی گروہوں کے ادب  کا بھی احاطہ کرتی ہے۔  

انگریزوں نے برصغیر میں ایک صدی سے سے زیادہ حکومت کی۔ برصغیر کے لوگوں نے منظم اور غیر منظم دونوں طریقوں سے  بھرپور مزاحمت کی۔  خاص طور پر ادیبوں  اور صحافیوں نے تو نہ صرف باقاعدہ مزاحمت کی بلکہ اس کا خمیازہ بھی بھگتا۔    اگرچہ برصغیر میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن  اردو، بنگلہ، اور ہندی زبانیں   بالترتیب پاکستان، بنگلہ دیش اور انڈیا کی سرکاری زبانیں ہیں۔  انگریزی زبان کو سرکاری  زبان کا درجہ تو حاصل نہیں ہے لیکن سرکاری دفتروں میں خط وکتابت اسی زبان میں کی جاتی ہے۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ انگریزی اشرافیہ کی زبان ہے۔  برصغیر کے طول وعرض پر نو آبادیاتی  اثرات کے مطالعے کے لیے انگریزی، بنگلہ اور ہندی زبانوں کو منتخب کیا گیا۔   اردو  ادب میں  پہلے ہی   سندی تحقیق ہو چکی ہے اس لیے اردو زبان کو شامل تحقیق نہیں کیا گیا۔  

کسی بھی تحقیق کے لیے تحقیقی مواد کا انتخاب اور فراہمی  ایک کڑا امتحان ہوتا ہے۔ معیاری تحقیقی مواد سے ہی  معیاری تحقیق ممکن ہے۔ تحقیقی مواد جتنا معتبر ہوگا اتنے ہی نتائج معتبر ہوں گے۔  تحقیقی مواد کے لیے”،  دلی کی شام”، “جھوٹا سچ”، اور “گورا” کو منتخب کیاگیا۔  یہ تینوں ناول بالترتیب 1940ء، 1960ء اور 1910ء میں منظرِ عام پر آئے۔  تینوں ناول نہ صرف نوآبادیاتی ادب کا حصہ ہیں بلکہ اس دوران لکھے جب نوآبادکار ہندوستان پر  اپنا تسلط قائم کر چکا تھا۔ لوگوں کے اذہان میں  نوآباد کا کروفر سرایت کرچکا تھا۔ نوآبادی باشندوں  کی شخصیت پر نوآبادی اثرات ظاہرہونا شروع ہو چکے تھے۔ان ناولوں  کے کرداروں میں نوآبادیاتی اثرات کی بھرپور عکاسی دیکھنے کو ملتی ہے۔ان منتخب  اردو مترجمہ ناولوں   کا مابعدنوآبادیاتی تناظر میں تحقیقی جائزہ لیا  گیا ہے۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں