ادب اور نفسیات کا گہرا تعلق انسانی فکر، احساس اور تخیل کی تہوں کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے، اور جب اس تعلق کا جائزہ یوٹوپیا کے رجحان کی روشنی میں لیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ کئی منتخب اردو کالم نگار اپنے سماجی، سیاسی یا تہذیبی تناظر میں مثالی دنیا یا “یوٹوپیا” کا تصور پیش کرتے ہیں، جو دراصل ایک نفسیاتی ردعمل کے طور پر سامنے آتا ہے۔ یہ رجحان خاص طور پر ان کالم نگاروں میں نمایاں ہوتا ہے جو مایوس کن سیاسی حالات، معاشی ناہمواری یا سماجی انتشار کے مقابل ایک ایسی دنیا کا تصور قائم کرتے ہیں جہاں عدل، مساوات، امن اور اخلاقی اقدار کی حکمرانی ہو۔ مثال کے طور پر اشفاق احمد، واصف علی واصف، یا جاوید چودھری جیسے کالم نگاروں کے ہاں یوٹوپیائی عناصر نہ صرف فکری رہنمائی کے طور پر پیش کیے گئے ہیں بلکہ وہ قاری کے لاشعور میں امید، سکون اور نجات کا تاثر بھی پیدا کرتے ہیں۔ نفسیاتی طور پر یہ رجحان فرد کی داخلی بے چینی، عدم تحفظ، اور موجودہ نظام سے مایوسی کے ردعمل کے طور پر ابھرتا ہے، جس میں وہ ایک خیالی لیکن متوازن دنیا کی طرف ذہنی فرار حاصل کرتا ہے۔ یہ یوٹوپیا کسی خواب، دعا، یا علامتی استعارے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، جس میں فرد نہ صرف موجودہ دنیا پر تنقید کرتا ہے بلکہ متبادل امکانات کی تلاش بھی کرتا ہے۔ تحقیقی و تنقیدی مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یوٹوپیائی رجحان بعض اوقات حقیقت گریزی (escapism) میں بدل جاتا ہے، جو اصلاحی عمل کو کمزور کر سکتا ہے، تاہم اگر اسے تخلیقی اور تنقیدی شعور کے ساتھ برتا جائے تو یہ نہ صرف فرد کی ذہنی تطہیر کا ذریعہ بنتا ہے بلکہ معاشرتی بہتری کی سمت بھی اشارہ کرتا ہے۔