Logo

کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

ادب اور نظریہ تواخذ:احمد ندیم قاسمی کے منتخب افسانوں اور “قاسمی کہانی” کا تقابلی مطالعہ

احمد ندیم قاسمی اردو افسانے کے ایک اہم ستون کی حیثیت رکھتے ہیں، جن کی کہانیوں میں نظریہ تواخذ (Intertextuality) کا منفرد انداز نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ ان کے منتخب افسانوں اور “قاسمی کہانی” کا تقابلی مطالعہ اس پہلو کو واضح کرتا ہے کہ ان کی تحریروں میں کس طرح مختلف ادبی و فکری متون کی بازگشت ملتی ہے۔ قاسمی کے افسانے دیہی اور شہری زندگی کی عکاسی کے ساتھ ساتھ انسانی نفسیات، طبقاتی کشمکش اور سماجی ناانصافی جیسے موضوعات پر مبنی ہوتے ہیں۔ “قاسمی کہانی” ایک مخصوص بیانیہ طرز کی نمائندگی کرتی ہے، جو ان کے افسانوں میں ہمہ گیر سماجی حقیقت نگاری، فطری مکالموں اور گہرے مشاہدے کے امتزاج سے تشکیل پاتی ہے۔ ان کے کئی افسانے علامتی اور استعاراتی سطح پر دیگر کلاسیکی اور جدید ادب سے تاثر لیتے ہوئے نظر آتے ہیں، جس سے ان کی تحریریں بین المتونی (Intertextual) رنگ اختیار کر لیتی ہیں۔ ان کے ہاں منٹو، کرشن چندر اور بیدی کے افسانوی انداز سے فکری ہم آہنگی بھی جھلکتی ہے، لیکن ان کی تخلیقی انفرادیت ان کے مخصوص دیہی پس منظر، انسانی رشتوں کی گہرائی اور اخلاقی و روحانی اقدار کے اظہار میں نمایاں ہوتی ہے۔ “قاسمی کہانی” کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بیانیے میں سادگی کے ساتھ گہرے فکری پہلو شامل ہوتے ہیں، جو ان کے افسانوں کی جمالیات اور فنی مہارت کا مظہر ہیں۔ اس تقابلی مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ احمد ندیم قاسمی کے افسانے اور “قاسمی کہانی” نہ صرف اردو افسانوی ادب کی روایت سے جڑے ہوئے ہیں بلکہ اپنے مخصوص فکری اور اسلوبیاتی امتزاج کے باعث ایک منفرد شناخت بھی رکھتے ہیں۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں