“ادب اور سماجی نفسیات: خیبرپختونخواہ کے منتخب معاصر اردو افسانے میں خوف اور دہشت کی عکاسی” ایک اہم اور گہرا تجزیاتی موضوع ہے جس میں خیبرپختونخواہ کے معاصر اردو افسانوں کے ذریعے سماجی نفسیات اور اس میں خوف اور دہشت کی عکاسی کو سمجھا جائے گا۔ اس مطالعے کا مقصد یہ جاننا ہے کہ خیبرپختونخواہ میں جاری سیاسی اور سماجی حالات، خاص طور پر دہشت گردی، فرقہ واریت، اور فوجی آپریشنز جیسے مسائل نے ادبی تخلیقات پر کیا اثر ڈالا ہے اور افسانوں میں کس طرح خوف اور دہشت کو ایک مرکزی موضوع کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ خیبرپختونخواہ کے علاقے میں جب سے دہشت گردی اور تشویشناک حالات کی لہر اٹھی ہے، یہاں کے افسانہ نگاروں نے ان سماجی مسائل کو اپنی تخلیقات میں جگہ دی ہے، جس میں خوف، تشویش، اور عدم تحفظ کی احساسات کو بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ ان افسانوں میں کرداروں کی نفسیاتی کیفیتوں، ان کے اندر کے خوف، اور بیرونی دہشت کے اثرات کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے، اور ان کے ذریعے اس خطے کے افراد کی زندگی کے پیچیدہ اور خوفناک پہلوؤں کی عکاسی کی گئی ہے۔ اس مطالعے میں ہم دیکھیں گے کہ افسانہ نگاروں نے کس طرح زبان، اسلوب، اور کہانی کی تشکیل کے ذریعے ان نفسیاتی کیفیتوں کو پیش کیا، اور یہ کہ کس طرح ادب نے ان خوفناک تجربات کو سماجی سطح پر اجاگر کیا۔ اس میں یہ بھی تجزیہ کیا جائے گا کہ ان افسانوں میں سماجی نفسیات کا گہرائی سے بیان کس طرح خوف اور دہشت کی فطری حالت کو ایک فنکارانہ شکل دیتا ہے، اور یہ کہ ادب کس طرح ان معاشرتی مسائل کا عکاس بن کر فرد اور معاشرے کے درمیان ایک مضبوط رابطہ قائم کرتا ہے۔ اس مطالعے کا مقصد خیبرپختونخواہ کے افسانوں میں خوف اور دہشت کی نفسیاتی نوعیت کو سمجھنا اور یہ جاننا ہے کہ ان افسانوں نے کیسے سماجی نفسیات کو ادبی بیان کے ذریعے موثر انداز میں پیش کیا ہے۔