اردو ناول میں جرمیات (Criminology) کے اسباب و محرکات کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ ایک ایسا موضوع ہے جو ادب اور سماجیات کے مابین پُل کا کام دیتا ہے۔ اردو ناول نگاروں نے وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف جرائم کو ایک سماجی حقیقت کے طور پر پیش کیا ہے بلکہ ان کے اسباب، نفسیاتی، معاشی، معاشرتی اور ثقافتی محرکات کو بھی گہرائی سے بیان کیا ہے۔ اردو ناول میں جرمیات کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جرم کو صرف قانون شکنی کے محدود دائرے میں نہیں دیکھا گیا بلکہ اسے ایک فرد کے گرد و پیش کے جبر، غربت، استحصال، احساسِ محرومی، طبقاتی تفریق، اور تعلیم و تربیت کی کمی سے جوڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ کلاسیکی اردو ناولوں جیسے “امراؤ جان ادا” میں طوائف کے سماجی مقام، اس کی مجبوریوں اور معاشرتی جبر کو بیان کر کے جرمیات کی ایک سماجی جہت سامنے آتی ہے، جب کہ بعد کے ناولوں جیسے “گؤدان” (اگرچہ ہندی ناول ہے مگر اردو تناظر میں بھی پڑھا جاتا ہے) اور قرۃالعین حیدر، عبداللہ حسین، انتظار حسین، اور عصمت چغتائی کے ناولوں میں بھی جرمیات مختلف انداز میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ خاص طور پر عبداللہ حسین کے ناول “اداس نسلیں” اور “باگھ” میں فرد اور ریاست کے درمیان کشمکش، سیاسی جبر، اور داخلی ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں جرم کی صورت گری ہوتی ہے۔ ان ناولوں میں جرم کو محض ایک خارجی واقعہ نہیں بلکہ ایک داخلی اور سماجی عمل کے طور پر سمجھا گیا ہے۔ جدید اردو ناول میں جرمیات کے اسباب میں نفسیاتی بےچینی، اجنبی ماحول، معاشرتی تغیرات، خاندانی نظام کا ٹوٹنا، بےروزگاری، اور اخلاقی زوال جیسے عناصر شامل ہو گئے ہیں۔ خواتین ناول نگاروں نے بھی جرمیات کو صنفی استحصال کے زاویے سے دیکھا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ عورت کے خلاف ہونے والے جرائم محض انفرادی بدکرداری نہیں بلکہ ایک پورے نظام کی خرابیوں کا مظہر ہیں۔ تنقیدی مطالعہ اس طرف بھی توجہ دلاتا ہے کہ اردو ناول نے جرمیات کو صرف کہانی کے ایک محرک کے طور پر استعمال نہیں کیا بلکہ اسے سماجی تجزیے کا ایک ذریعہ بنایا ہے۔ نتیجتاً اردو ادب میں جرم، مجرم اور عدالتی نظام کی عکاسی کے ذریعے ایک سماجی شعور پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بعض ناقدین نے تو اردو ناول کو ’سماجی جرمیات‘ کی ایک متبادل دستاویز بھی قرار دیا ہے۔ اس تحقیقی مطالعے کے ذریعے اردو ناول میں جرم کو محض ایک عمل کے بجائے ایک مکمل تناظر، پس منظر، اور معاشرتی بیانیہ کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔