ادب انسانی تجربات کی ترجمانی کرتا ہے۔ یہ معاشرتی، نفسیاتی اور اخلاقی حوالوں سے ان محرکات کو پیش کرتا ہے جو انسان کی داخلی اور خارجی زندگی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ادب نہ صرف سماج کا آئینہ ہوتا ہے بلکہ اس کی تشکیل میں بھی کردار ادا کرتا ہے۔ اردو افسانہ، بطور صنفِ ادب، انسانی زندگی کی نازک پرتوں کو نہایت گہرائی سے چھوتا ہے۔ انسانی حقوق، بالخصوص ہراسانی جیسے اہم سماجی مسئلے پر اردو افسانہ نگاروں نے متنوع اسالیب میں اظہار کیا ہے۔ ہراسانی صرف جنسی نوعیت تک محدود نہیں، بلکہ معاشرتی، نفسیاتی، جذباتی اور ثقافتی دائرہ بھی رکھتی ہے۔ اس مضمون میں ہم اردو افسانے میں انسانی حقوق کی پامالی کی صورت میں ہراسانی کے بیانیے کا تنقیدی مطالعہ کریں گے۔
انسانی حقوق کا تصور حقوقِ انسانی کے عالمی منشور (UDHR – 1948) کے بعد زیادہ واضح ہو کر سامنے آیا، جس میں آزادیِ اظہار، مساوات، تعلیم، سلامتی، وقار، روزگار، اور ظلم سے تحفظ جیسے بنیادی حقوق شامل کیے گئے۔ ادب نے اس شعور کو نہ صرف فروغ دیا بلکہ ان حقوق کی پامالی کو موضوعِ اظہار بنا کر سماجی و فکری بیداری کی بنیاد فراہم کی۔ اردو افسانہ نگاری میں ہراسانی کے موضوع پر حساس اور جرات مندانہ اظہار ملتا ہے، جس میں کرداروں کی خاموش چیخیں، استحصال کی شکلیں اور طاقت کے بے رحم مظاہر نمایاں ہوتے ہیں۔
اردو افسانے میں ہراسانی کے کئی پہلو زیرِ بحث آتے ہیں:
- جنسی ہراسانی
- سماجی جبر و استحصال
- نفسیاتی اور جذباتی دباؤ
- معاشی بدحالی سے جڑی تذلیل
- ثقافتی، نسلی یا لسانی بنیادوں پر تعصب
ان موضوعات کو اردو کے اہم افسانہ نگاروں نے نہایت فنکارانہ مگر تلخ انداز میں پیش کیا ہے۔
عصمت چغتائی نے خواتین کی زندگی میں جنسی اور سماجی ہراسانی کی عکاسی نہایت جرات مندی سے کی۔ ان کا مشہور افسانہ “لحاف“ اسی نوعیت کا نمائندہ ہے، جس میں بچپن کی معصوم آنکھوں سے نسوانی جنسی محرومی اور جذباتی عدم توازن کو بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح “چھوی” اور “گیندا” جیسے افسانے طبقاتی استحصال اور عورت کے جسمانی استیصال کو عیاں کرتے ہیں۔
منٹو کے افسانے انسانی حقوق کی پامالی کے آئینہ دار ہیں۔ “ٹھنڈا گوشت“ میں نہ صرف جنسی تشدد بلکہ جنگ کے دوران عورت کی بےبسی اور سماجی بے حسی کو واضح کیا گیا ہے۔ “بو”، “کالی شلوار”، “خالی بوتلیں خالی ڈبے“ جیسے افسانے خواتین پر روزمرہ کی جنسی نظریاتی ہراسانی کی تصویریں پیش کرتے ہیں۔ منٹو نے ان موضوعات کو بنا کسی لفاظی کے، حقیقت کے آئینے میں دکھایا۔
بانو قدسیہ نے ہراسانی کو صرف جسمانی یا جنسی عمل تک محدود نہیں رکھا بلکہ نفسیاتی دباؤ، رشتوں میں جذباتی زیادتی، اور سماجی بےحسی کو بھی ہراسانی کی ایک شکل قرار دیا۔ ان کا افسانہ “بازگشت“ ان موضوعات کی عمدہ مثال ہے۔
- فرحت پروین کے افسانوں میں عورت کے ساتھ ہونے والی نفسیاتی ہراسانی اور سماجی ناانصافی کی جھلک ملتی ہے۔
- خالدہ حسین کے افسانے نسوانی کرداروں کے داخلی خلفشار، خوف، عدم تحفظ، اور تشخص کے بحران پر مرکوز ہیں۔
- ممتاز مفتی نے معاشرتی جبر کو جنسی پہلوؤں کے ساتھ جوڑ کر بیان کیا، اور کئی جگہ مردوں کی جذباتی الجھنیں بھی ہراسانی کی ایک نئی جہت بن کر سامنے آئیں۔
جدید اردو افسانے میں #MeToo تحریک کے بعد ہراسانی پر لکھنے کا ایک نیا رجحان دیکھنے میں آیا۔ نور الہدیٰ شاہ، حسینہ معین، شاذیہ سجاد حیدر، اور دیگر لکھاریوں نے اپنے افسانوں میں دفتری ماحول، میڈیا، تعلیم گاہوں اور گھریلو ماحول میں خواتین کو درپیش نفسیاتی، جنسی اور معاشرتی دباؤ کی سچی تصویریں دکھائی ہیں۔
افسانہ “بند دروازہ“ میں ایک اسکول ٹیچر کی اپنے ہی ادارے کے ہیڈ سے مسلسل ہراسانی کا بیان ہے، جو صرف ذاتی نہیں بلکہ ایک پورے تعلیمی نظام پر سوال اٹھاتا ہے۔ اسی طرح “خاموش عورت“ جیسے افسانے ایک عام عورت کے اندرونی خلفشار کو پیش کرتے ہیں جو معاشرتی جکڑ بندیوں کی قید میں سانس لیتی ہے۔
اردو افسانے میں ہراسانی کے مسئلے کو بعض اوقات علامتی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ مثلاً انتظار حسین کے افسانے “شہرِ افسوس” اور “زرد کتا” میں غیر مرئی ہراسانی کو علامتی طریقے سے بیان کیا گیا ہے، جہاں کردار کسی غیر مرئی قوت یا خوف کا شکار ہوتے ہیں۔
افسانہ نگاروں نے پہلی شخص بیانیہ، داخلی مونولاگ، علامت نگاری، تجریدیت اور علامتی فضا سازی کے ذریعے ہراسانی کے موضوع کو نیا زاویہ دیا۔ اسلوب میں تنوع اور کردار کی نفسیاتی تشکیل نے افسانوں کو صرف بیانیہ کہانیاں نہیں، بلکہ فکری مواد میں بدل دیا۔
اردو افسانہ نگاروں نے انسانی حقوق، خاص طور پر ہراسانی کے موضوع پر غیر معمولی جرات کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کے افسانے معاشرے کی پرتیں چیر کر ان حقائق کو سامنے لاتے ہیں جنہیں عموماً دبا دیا جاتا ہے۔ تاہم بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ افسانہ نگاروں کو موضوع کے انتخاب میں مزید تنوع اور طبقاتی و صنفی حوالوں سے گہرائی پیدا کرنی چاہیے۔
اردو افسانہ انسانی حقوق کی جدوجہد کا ایک مضبوط ذریعہ ہے۔ ہراسانی جیسے حساس اور تلخ موضوع کو ادب نے انتہائی خوبصورتی سے پیش کیا ہے، جو نہ صرف قاری کو جھنجھوڑتا ہے بلکہ سماج کے ضمیر کو بیدار کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے۔ اردو افسانے نے ہر دور میں مظلوم کی آواز بن کر، انسانی کرامت اور وقار کا دفاع کیا ہے۔ ہراسانی کے خلاف یہ ادبی احتجاج صرف ایک صنفِ ادب کی مثال نہیں بلکہ انسانی فطرت، شعور اور مزاحمت کا بیانیہ ہے۔