عبداللہ حسین کا ناول “اداس نسلیں” اردو ادب کا ایک ایسا شاہکار ہے جو نہ صرف اپنی فکری گہرائی بلکہ اپنی فنی ساخت، تاریخی شعور اور انسانی احساس کے سبب اردو ناول کی تاریخ میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ یہ ناول پہلی بار 1963ء میں شائع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے اردو فکشن کے افق پر ایک انقلاب کی صورت اختیار کر گیا۔ عبداللہ حسین نے اس ناول میں برصغیر کی سیاسی، سماجی، معاشی اور نفسیاتی زندگی کا ایسا جامع نقشہ کھینچا ہے جو آزادی سے پہلے اور بعد کے پورے عہد کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ ’’اداس نسلیں‘‘ ایک فرد کی نہیں بلکہ پوری قوم کی کہانی ہے — ایسی قوم کی جو غلامی سے آزادی تک کا سفر کرتی ہے مگر آزادی کے بعد بھی اپنی شناخت، انصاف اور سکون کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہے۔
ناول کی کہانی کا مرکزی کردار نعیم ہے، جو ایک عام مگر حساس اور باشعور انسان ہے۔ اس کے ذریعے مصنف نے انیسویں صدی کے اواخر سے لے کر تقسیم ہند تک کے حالات و واقعات کو نہایت حقیقت نگاری سے پیش کیا ہے۔ نعیم کا بچپن ایک متوسط طبقے کے پس منظر میں گزرتا ہے، لیکن جنگ عظیم اوّل میں برطانوی فوج میں شمولیت اس کی زندگی کا رخ بدل دیتی ہے۔ وہ جنگ کے میدانوں میں انسانی المیے، موت، تباہی اور ظلم کی وہ شکلیں دیکھتا ہے جو اسے اندر سے بدل دیتی ہیں۔ جنگ کے تجربے کے بعد وہ واپس اپنے وطن آتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ غلامی کے شکنجے میں جکڑا ہوا معاشرہ بھی ایک جنگی قید خانے سے کم نہیں۔ نعیم کے کردار کے ذریعے عبداللہ حسین نے اُس ذہنی کشمکش کو مجسم کیا ہے جو برصغیر کے حساس نوجوانوں کے اندر انگریز سامراج کے خلاف بیدار ہو رہی تھی۔
’’اداس نسلیں‘‘ کا سب سے نمایاں پہلو اس کا تاریخی تناظر ہے۔ ناول میں پہلی جنگِ عظیم، تحریکِ خلافت، کانگریس اور مسلم لیگ کی سیاست، ہندو مسلم کشیدگی، اور قیامِ پاکستان جیسے اہم واقعات کا بیان نہایت غیر جانب دارانہ انداز میں کیا گیا ہے۔ مصنف نے کسی سیاسی جماعت یا نظریے کی وکالت نہیں کی بلکہ تاریخ کو ایک انسانی المیے کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان کے نزدیک تاریخ محض واقعات کا سلسلہ نہیں بلکہ انسانوں کے دکھ، خوابوں اور شکستوں کی داستان ہے۔ وہ دکھاتے ہیں کہ آزادی کی جدوجہد میں عام انسان سب سے زیادہ قربانیاں دیتے ہیں مگر ان کے حصے میں سب سے کم خوشیاں آتی ہیں۔
عبداللہ حسین کی نثر کا اسلوب ’’اداس نسلیں‘‘ میں اپنی مثال آپ ہے۔ وہ نہایت رواں، بلیغ اور شاعرانہ نثر استعمال کرتے ہیں۔ ان کی زبان میں ایک درد بھری موسیقیت ہے جو قاری کے دل کو چھو لیتی ہے۔ کہیں کہیں ان کے جملے علامتی اور استعاراتی انداز اختیار کر لیتے ہیں، جو متن کو ایک فلسفیانہ گہرائی دیتے ہیں۔ کرداروں کے مکالمے فطری اور زندگی سے قریب ہیں۔ منظرنگاری، داخلی مکالمے اور فلیش بیک تکنیک کے استعمال نے ناول کو ایک جدید بیانیاتی ڈھانچہ عطا کیا ہے۔ مصنف نے واقعات کو محض بیان نہیں کیا بلکہ ان کے اندر جھانک کر انسانی ذہن کے بدلتے ہوئے رویوں کو اجاگر کیا ہے۔
ناول کا عنوان ’’اداس نسلیں‘‘ بذاتِ خود پورے عہد کی علامت ہے۔ یہ ان نسلوں کی کہانی ہے جو آزادی سے پہلے غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھیں اور آزادی کے بعد بھی نفسیاتی، معاشرتی اور طبقاتی بندشوں سے آزاد نہ ہو سکیں۔ ناول میں اداسی، مایوسی اور تلاشِ معنی کا ایک گہرا جذبہ موجود ہے۔ مصنف نے ایک ایسی نسل کا نوحہ لکھا ہے جو امید اور مایوسی کے درمیان الجھی ہوئی ہے۔ نعیم کا المیہ دراصل اُس نسل کا المیہ ہے جو آزادی کی قیمت چکاتی ہے مگر اس کے ثمرات سے محروم رہتی ہے۔
تنقیدی طور پر دیکھا جائے تو ’’اداس نسلیں‘‘ اردو ناول کی روایت میں کئی نئی جہتیں متعارف کراتا ہے۔ اس سے قبل اردو ناول زیادہ تر سماجی یا رومانی موضوعات تک محدود تھے، مگر عبداللہ حسین نے تاریخ، سیاست، نفسیات اور فلسفے کو ایک ساتھ سمو کر ناول کو فکری وسعت عطا کی۔ ان کا اسلوب نہ صرف حقیقت نگاری سے مالامال ہے بلکہ علامت نگاری اور علامتی بیانیہ بھی اس میں جابجا نظر آتا ہے۔ ان کی تحریر میں فنی پختگی اور فکری گہرائی کا امتزاج پایا جاتا ہے۔
اس ناول کی ایک بڑی خوبی اس کی کردار نگاری ہے۔ نعیم، عابدہ، رشیدہ، سلیم، اور دوسرے تمام کردار اپنی اپنی جگہ جیتے جاگتے انسان محسوس ہوتے ہیں۔ نعیم کے کردار میں مصنف نے ایک ایسے انسان کو مجسم کیا ہے جو حالات سے سمجھوتہ نہیں کرتا بلکہ اپنے شعور کے سفر پر چل نکلتا ہے۔ عابدہ ایک مضبوط عورت ہے جس میں وفاداری، محبت اور قربانی کے جذبے کی جھلک ملتی ہے۔ عبداللہ حسین نے عورت کے کردار کو محض جذباتی پیکر کے طور پر نہیں بلکہ ایک فکری اور فعال وجود کے طور پر پیش کیا۔
’’اداس نسلیں‘‘ کی ایک اہم تنقیدی جہت اس کی وجودی علامتیں ہیں۔ نعیم کا کردار ایک وجودی انسان ہے جو زندگی کے معنی اور مقصد کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ جنگ، سیاست اور سماجی ناانصافیوں کے بیچ وہ خود اپنی شناخت کھو دیتا ہے۔ یہ وجودی کرب ہی ناول کی فضا کو ’’اداس‘‘ بناتا ہے۔ ناقدین کے مطابق عبداللہ حسین نے یہاں فرد اور معاشرے کی کشمکش کو نہایت گہرے نفسیاتی اور فلسفیانہ انداز میں پیش کیا ہے۔
اگرچہ ’’اداس نسلیں‘‘ کو اردو ادب میں ایک شاہکار کا درجہ دیا گیا ہے، لیکن کچھ ناقدین نے اس پر یہ اعتراض بھی کیا ہے کہ ناول بعض مقامات پر طوالت کا شکار ہو جاتا ہے اور کہیں کہیں واقعات کی ترتیب میں بے ربطی محسوس ہوتی ہے۔ تاہم، یہ کمزوریاں ناول کی مجموعی عظمت کو متاثر نہیں کرتیں۔ اس کے فکری افق، علامتی گہرائی اور بیانیہ قوت نے اسے اردو کے کلاسیکی ناولوں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔
آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ ’’اداس نسلیں‘‘ اردو ادب میں وہ ناول ہے جس نے تاریخی شعور کو انسانی تجربے کی زبان دی۔ اس نے دکھایا کہ قومیں صرف آزادی سے خوشحال نہیں ہوتیں بلکہ انہیں فکری اور اخلاقی آزادی بھی درکار ہوتی ہے۔ عبداللہ حسین نے اس ناول میں غلامی، جنگ، محبت، قربانی، شکست، اور تلاشِ معنویت کے سارے پہلوؤں کو ایک ایسا فنی قالب دیا ہے جو اردو ناول کے ارتقا میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ’’اداس نسلیں‘‘ صرف ایک ناول نہیں بلکہ ایک عہد کی تاریخ، ایک قوم کا کرب، اور ایک انسان کی روح کی چیخ ہے — وہ چیخ جو وقت گزرنے کے باوجود آج بھی قاری کے دل میں گونجتی رہتی ہے۔



