پاکستان میں جدید اردو نظم نگاری کا ارتقا اردو ادب کی تاریخ کا ایک ایسا باب ہے جو نہ صرف فن، اسلوب اور موضوعات کے تنوع کی علامت ہے بلکہ سیاسی، سماجی اور تہذیبی شعور کے ارتقائی سفر کا آئینہ بھی ہے۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد جہاں ادب میں ایک نئے خطے، شناخت اور نظریے کی بنیاد پر تخلیقی رجحانات نے جنم لیا، وہیں اردو نظم نے بھی نئی فکری اور اسلوبی جہتیں اختیار کیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد اردو نظم صرف جمالیاتی اظہار کا ذریعہ نہ رہی بلکہ اس نے فرد، ریاست، معاشرہ اور عالمی تبدیلیوں کے تناظر میں ایک فکری اور مزاحمتی کردار ادا کیا۔ اس مضمون میں ہم پاکستان میں جدید اردو نظم کے ارتقائی مراحل، اسالیب، رجحانات، نمایاں شعرا اور ان کے فکری و فنی اثرات کا تنقیدی جائزہ پیش کریں گے۔
قیام پاکستان کے فوراً بعد اردو نظم پر ترقی پسند تحریک کے اثرات غالب رہے۔ فیض احمد فیض، ساحر لدھیانوی (جو بعد ازاں بھارت چلے گئے)، مجروح سلطان پوری، اور دیگر شعرا نے انقلابی شعور، طبقاتی جدوجہد، مزدور و کسان کی آواز، ظلم و استحصال کے خلاف مزاحمت، اور سامراجی طاقتوں کی مخالفت کو اپنا موضوع بنایا۔ پاکستان میں فیض احمد فیض اس تحریک کے سب سے روشن ستارے بن کر ابھرے، جنہوں نے اردو نظم کو ایک نیا لب و لہجہ، استعارہ، علامت اور سیاسی فہم عطا کیا۔ ان کی نظموں میں عشقیہ جذبات، سیاسی وابستگی، اور طبقاتی شعور اس طرح باہم مدغم ہوتے ہیں کہ نظم محض احتجاج یا رومان نہیں بلکہ ایک فکری جہت اختیار کر لیتی ہے۔
پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں جب دنیا میں وجودی فکر، علامتی اظہار، اور داخلی تجربے پر زور دیا جانے لگا تو پاکستان میں بھی نظم نگاروں نے ذاتی کرب، بے یقینی، تنہائی، شکست خوردگی، اور روحانی خلا کو نظم کا موضوع بنایا۔ ن۔ م۔ راشد، جو اگرچہ قیام پاکستان سے پہلے ہی اپنی علامتی و آزاد نظم کے لیے جانے جاتے تھے، مگر پاکستان کے فکری منظرنامے پر ان کا اثر دیرپا رہا۔ راشد کی نظموں میں داخلی کشمکش، جنسی جبر، تہذیبی بحران، اور روایت سے بغاوت کی وہ شدت نظر آتی ہے جو جدید نظم کو محض بیانیہ اظہار سے بلند کرتی ہے۔
اسی دور میں میراجی کا اثر بھی نظم نگاروں پر گہرا تھا، جنہوں نے لاشعور، تحلیلِ نفسی، یونانی اساطیر اور ذاتی کرب کو نظم کا وسیلہ بنایا۔ اگرچہ میراجی پاکستان منتقل نہ ہو سکے، لیکن پاکستان کے نظم نگاروں جیسے کہ ذوالفقار تابش، سرور جاوید، قیصر نجفی اور بعد میں احمد ندیم قاسمی اور پروین شاکر پر ان کے اسلوبی اثرات نمایاں رہے۔
ساٹھ اور ستر کی دہائی میں اردو نظم نے روایت شکن رویوں کو اپنایا۔ نظم میں پابندیِ عروض سے نجات، نثری ساخت کا استعمال، اور بیانیہ کے بجائے تاثر، علامت، اور ایمیج کے ذریعے اظہار ایک رجحان بن گیا۔ اس دور میں ایسی نظمیں بھی لکھی گئیں جو نہ عروضی قالب میں تھیں، نہ موضوعاتی پابندیوں میں۔ یہ نظم دراصل ایک داخلی کیفیت کا اظہار بن گئی، جس میں شعورِ رواں، زمانی و مکانی تغیر، اور تہذیبی انہدام کے اثرات موجود تھے۔
اس دور میں نثری نظم بھی ایک تجربے کے طور پر سامنے آئی۔ زاہد ڈار، افتخار جالب، محمد حمید شاہد، اور آصف فرخی جیسے شعرا نے نثری نظم کو محض مغرب کی نقالی کے طور پر نہیں بلکہ اردو کے داخلی بیانیے میں فٹ کر کے پیش کیا۔ ان نظموں میں معاصر انسانی وجود کا بکھراؤ، شہریت کے مسائل، عورت کا شعور، جنگ، ہجرت، دہشت، اور حب الوطنی جیسے متنوع موضوعات موجود تھے۔
ستر اور اسی کی دہائی میں اردو نظم میں نسائی شعور ایک مضبوط رجحان کے طور پر ابھرا۔ اس عہد میں جہاں سوشلسٹ نظریات، مارشل لا، ریاستی جبر، اور فکری سنسرشپ نے ادیب کو نئی راہیں دکھائیں، وہیں خواتین نظم نگاروں نے بھی اپنے داخلی وجود، صنفی امتیاز، اور معاشرتی ظلم کو شاعری کے ذریعے بیان کیا۔ پروین شاکر نے محبت، عورت کی خودی، اس کی تنہائی اور جذبات کو ایک نئی نسائی نزاکت، شعور اور لسانی جمالیات کے ساتھ نظم میں ڈھالا۔ فہمیدہ ریاض، کشور ناہید اور بعد میں ناصرہ زبیری نے بھی عورت کی حیثیت کو علامتی اور فکری سطح پر نمایاں کیا۔ ان شعرا کی نظموں میں عورت محض محبوبہ یا مظلوم نہیں، بلکہ ایک باخبر، باغی اور متحرک کردار کے طور پر ابھرتی ہے۔
انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں اردو نظم ایک بار پھر نئے فکری اور اسلوبی تجربات سے گزری۔ اس عہد میں عالمی ادب، سیاسی تبدیلیوں، جنگ، دہشت گردی، بین الاقوامی نیولبرل ازم، شناخت کے بحران، اور ماحولیاتی تباہی جیسے موضوعات کو نظم میں شامل کیا گیا۔ نئی نظم کے شعرا جیسے کہ عباس تابش، حسن عباسی، عدنان کاکڑ، اور علی محمد فرشی نے ایسے موضوعات کو نظم میں برتا جن سے پہلے صرف افسانہ یا صحافت میں اظہار ہوتا تھا۔ نظم میں بیانیہ اور علامتی اظہار کے ساتھ ساتھ طنز، تمثیل، اور بین المتونی (intertextual) حکمت عملی بھی سامنے آئی۔
مابعد جدید نظم نے معنی کی مرکزیت کو توڑا، نظم کو زبان کا تجربہ بنایا، اور موضوعات کو تہذیبی، صنفی اور فکری تناظر میں پھیلایا۔ اس میں شاعری اب محض جذبہ یا نعرہ نہیں رہی بلکہ ایک ایسا مظہر بن گئی جو قاری کو متن میں شامل ہونے، تشریح کرنے، اور کئی سطحوں پر معنی کشائی کی دعوت دیتی ہے۔
پاکستان میں جدید اردو نظم نگاری کا ارتقا دراصل اردو زبان کے فکری شعور، تہذیبی حوالوں، اور سیاسی مزاحمت کا بیانیہ بھی ہے۔ اس نے روایت اور تجدد، داخلیت اور خارجیت، عشق اور احتجاج، مردانہ اور نسائی، مشرقی اور مغربی فکر کو ساتھ لے کر ایک ایسا اسلوب تشکیل دیا جس میں فرد کی بے بسی بھی ہے اور اس کی مزاحمت بھی۔ اردو نظم نگاروں نے زبان کے سانچوں کو توڑ کر ایک ایسی نئی شاعری تخلیق کی جس میں سماج کی روح دھڑکتی ہے۔ پاکستان میں جدید نظم نہ صرف ایک ادبی تجربہ ہے بلکہ ایک فکری، تاریخی اور تہذیبی تناظر بھی، جو مستقبل کے شعرا کے لیے سمت کا تعین کرتا ہے اور قاری کو مسلسل ایک نئے شعری شعور کی طرف بلاتا ہے۔