عصمت چغتائی اردو کی ایک جرات مند، فکری اور انقلابی افسانہ نگار، ناول نویس، مضمون نگار اور تانیثی شعور کی اولین ترجمان مصنفہ تھیں جنہوں نے بیسویں صدی کے وسط میں اردو ادب میں خواتین کی داخلی زندگی، ان کے احساسات، جنس، معاشرتی جبر، اور صنفی تضادات کو بےباکی، سچائی اور فنکاری کے ساتھ بیان کیا۔ ان کی پیدائش 21 اگست 1915 کو بدایوں (اتر پردیش، بھارت) میں ہوئی اور ان کا تعلق ایک تعلیم یافتہ مگر قدامت پسند مسلم گھرانے سے تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم علی گڑھ اور لاہور سے حاصل کی، اور بعد ازاں بی۔ اے اور بی۔ ٹی کی ڈگریاں حاصل کر کے تعلیم و ادب کے میدان میں قدم رکھا۔ ان کی تحریریں اردو افسانے میں ایک نیا طرزِ احساس، نیا لہجہ اور نئی فکر لے کر آئیں، خصوصاً عورت کے داخلی وجود کو جس سچائی کے ساتھ انہوں نے پیش کیا، وہ اس سے پہلے اردو ادب میں ناپید تھا۔
عصمت چغتائی کی شہرت کا سبب ان کا مشہور افسانہ “لحاف“ ہے، جسے 1942ء میں شائع ہوتے ہی سخت تنقید، پابندی اور عدالتی مقدمے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس افسانے میں خواتین کے درمیان جنسی کشش اور تنہائی کی جبلت کو نہایت رمز آمیز مگر جرأت مندانہ انداز میں پیش کیا گیا، جو اُس وقت کے اردو ادب میں بالکل نیا، چونکا دینے والا، مگر فنی طور پر قابلِ قدر تجربہ تھا۔ اگرچہ انہیں فحاشی کے الزام میں عدالت میں گھسیٹا گیا، مگر وہ نہ صرف اپنی بات پر قائم رہیں بلکہ اپنے مؤقف کا بھرپور دفاع کیا، اور بالآخر مقدمہ جیت گئیں۔ عصمت چغتائی کے ہاں عورت ایک بےبس یا نازک مخلوق نہیں بلکہ ایک جیتی جاگتی، خواہش رکھنے والی، سوچنے سمجھنے والی، سوال اٹھانے والی ہستی ہے جو مردانہ جبر کے خلاف مزاحمت کرتی ہے، سماجی رویوں کو چیلنج کرتی ہے اور خود اپنے وجود کی دریافت میں مصروف ہے۔
ان کی اہم تخلیقات میں افسانوی مجموعے: “کلیاں“, “چھوٹا منّا کی کہانیاں“, “دو ہاتھ“, اور “ایک بات“، ناول: “ٹیڑھی لکیر“, “دل کی دنیا“, “صاحبہ“, خود نوشت: “کاغذی ہے پیرہن“, اور ڈرامے و مضامین شامل ہیں۔ ان کے ناول “ٹیڑھی لکیر“ کو اردو کی اولین نسوانی خودآگاہی کا ناول سمجھا جاتا ہے، جس میں ایک متوسط طبقے کی عورت کی فکری و جذباتی آزادی کی جدوجہد کو غیر معمولی فنی قوت سے پیش کیا گیا ہے۔ عصمت کا اسلوب مکالماتی، برجستہ، مزاحیہ، اور طنزیہ ہے، جس میں روزمرہ کی زبان کا تخلیقی استعمال ان کی نثر کو زندہ اور قاری کے دل کے قریب بناتا ہے۔
عصمت چغتائی ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھیں مگر ان کی فکر محض نظریاتی نہیں تھی، بلکہ وہ عورت کی داخلی نفسیات، متوسط طبقے کی منافقت، مذہبی جبر، مردانہ انا، اور گھریلو استبداد جیسے موضوعات پر نہایت گہرائی اور ایمانداری سے لکھتی رہیں۔ انہوں نے اردو ادب میں عورت کو محض موضوع نہیں، مصنف، راوی، اور مزاحم وجود کے طور پر پیش کیا۔ ان کا انتقال 24 اکتوبر 1991 کو ہوا، مگر ان کا ادبی کارنامہ آج بھی اردو ادب، خصوصاً نسائی ادب کے لیے سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ عصمت چغتائی کی تحریریں آج بھی پڑھنے والے کو چونکاتی ہیں، جھنجھوڑتی ہیں، اور ادب میں سچ بولنے کا حوصلہ عطا کرتی ہیں۔
عصمت چغتائی اردو ادب کی اُن چند جری، باہمت اور انقلابی خواتین میں شمار ہوتی ہیں جنہوں نے بیسویں صدی کے وسط میں نہ صرف اردو فکشن میں ایک نئی فکری روح پھونکی بلکہ عورت کی خودی، شناخت، مزاحمت اور جنسی شعور جیسے حساس موضوعات کو فکری گہرائی اور اسلوبی مہارت کے ساتھ پیش کر کے ادبی روایت میں انقلابی تبدیلی پیدا کی۔ ان کے ناولوں میں سماجی ساخت، طبقاتی جبر، صنفی نابرابری، مذہبی منافقت، ازدواجی بندھن کی پیچیدگیاں، اور عورت کے داخلی جذبات کا جو بیانیہ مرتب ہوا ہے، وہ نہ صرف اردو ادب میں منفرد ہے بلکہ برصغیر کی تانیثی تحریک کا فکری مظہر بھی ہے۔
عصمت چغتائی کے ناولوں کا سب سے پہلا نمایاں پہلو ان کا تانیثی وژن ہے، جو عورت کو محض مظلوم، خاموش اور ایثار پسند وجود کے بجائے ایک باشعور، خودمختار اور سوال کرنے والی ہستی کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ان کے کردار اکثر ان اقدار و ضوابط کو چیلنج کرتے ہیں جو صدیوں سے عورت کو مرد کے تابع، غیر سیاسی، غیر جنسی اور غیر سماجی وجود بنانے کے لیے وضع کی گئی تھیں۔ ان کے مشہور ناول ٹیڑھی لکیر کی مرکزی کردار شمن، ایک ایسی لڑکی ہے جو بچپن سے جوانی تک سماج کے بنائے ہوئے ہر سانچے سے متصادم ہوتی ہے۔ وہ ماں باپ کی ناروا سختیوں، اساتذہ کی منافقت، معاشرتی رسمیات، اور مردانہ رویوں کو قبول کرنے سے انکار کرتی ہے۔ شمن محض ایک کردار نہیں، بلکہ ایک تہذیبی احتجاج، ایک وجودی بے چینی، اور ایک فکری اعلان ہے کہ عورت نہ صرف زندہ شعور رکھتی ہے بلکہ وہ اپنی زندگی کی سمت خود طے کرنا چاہتی ہے۔
عصمت چغتائی کے ناولوں میں سماجی ساخت کے مختلف پہلو بھی بڑی شدت سے نمایاں ہوتے ہیں۔ وہ متوسط طبقے کے روایتی خول، گھر کے اندر کی سیاست، رشتوں کی مصنوعی نزاکت، اور مذہب کے نام پر عورت کو قابو میں رکھنے والی ذہنیت کو بڑی چابک دستی سے بے نقاب کرتی ہیں۔ ان کے ہاں عورت اور مرد کے درمیان کا تعلق صرف محبت یا ازدواجی بندھن نہیں، بلکہ طاقت، تسلط، اور نفسیاتی کشمکش کا مظہر ہوتا ہے۔ ناول ماسوما کی ہیروئن ایک پڑھی لکھی لڑکی ہے جو معاشی آزادی، جنسی شعور، اور سماجی آزادی کی متلاشی ہے، لیکن اسے ہر قدم پر ایک ایسا معاشرہ ملتا ہے جو صرف اس کی جسمانی موجودگی سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، نہ کہ اس کی ذہنی و روحانی شناخت سے۔
عصمت کا اسلوب بھی ان کے تانیثی اور سماجی شعور کا عکاس ہے۔ ان کی زبان کھری، سادہ، روزمرہ بول چال سے قریب، اور طنز و مزاح سے بھرپور ہوتی ہے۔ وہ منافقانہ اخلاقیات، جھوٹی شرافت، اور مردانہ اقدار کی پرتیں اس چابکدستی سے کھولتی ہیں کہ قاری نہ صرف محظوظ ہوتا ہے بلکہ چونک بھی جاتا ہے۔ ان کے بیانیے میں عورت کی شخصیت ایک متحرک، سوچنے والی، بولنے والی اور سوال کرنے والی قوت بن کر سامنے آتی ہے۔
تنقیدی لحاظ سے عصمت چغتائی کے ناول اردو تانیثی ادب کی بنیاد رکھتے ہیں۔ ان کا زور اس بات پر ہے کہ عورت کی آزادی صرف جسمانی یا سماجی سطح پر نہیں بلکہ فکری اور نفسیاتی سطح پر ہونی چاہیے۔ وہ ان تمام کرداروں کو رد کرتی ہیں جو عورت کو صرف قربانی، ایثار، یا شرم و حیا کی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ عورت کو ایک ایسا وجود مانتی ہیں جو اپنے جسم، خواہش، اور فیصلے پر حق رکھتی ہے۔ یہی تصور انہیں روایتی نسوانی کرداروں سے الگ اور عصرِ حاضر کی تانیثی فکر سے ہم آہنگ بناتا ہے۔
مزید برآں، عصمت چغتائی کا کام نوآبادیاتی پس منظر، مذہبی تنگ نظری، اور معاشی ناہمواری جیسے مسائل کو بھی عورت کے تناظر سے دیکھتا ہے۔ ان کے کئی ناولوں میں یہ واضح ہوتا ہے کہ عورت کے مسائل صرف جنس کی بنیاد پر نہیں، بلکہ طبقے، ذات، نسل، اور مذہب کی بنیاد پر بھی تشکیل پاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریریں ایک بین المتنی (intersecting) تانیثی شعور کی حامل ہیں، جو جدید فیمینزم کے بنیادی اصولوں سے ہم آہنگ ہے۔
نتیجتاً کہا جا سکتا ہے کہ عصمت چغتائی کے ناول اردو فکشن میں وہ سنگِ میل ہیں جنہوں نے عورت کو ادب کا مرکزی کردار، فعال شعور، اور فکری ترجمان بنایا۔ ان کی تحریروں نے اردو ادب میں محض ایک صنفی حساسیت نہیں، بلکہ ایک انقلابی شعور متعارف کرایا، جو آج بھی تانیثی ادب کے لیے بنیاد اور تحریک فراہم کرتا ہے۔ ان کے ناول عورت کی شناخت، مزاحمت اور اختیار کے بیانیے کی ایسی توانا آواز ہیں جسے نظر انداز کرنا اردو ادب کی تاریخ سے ایک سچی اور معتبر آواز کو حذف کرنے کے مترادف ہوگا۔